اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر۸۴

اُس وقت تک عرب میں کفر اور اسلام کی کشمکش کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ اسلام اپنے پیرووں کی سرفروشیوں کے سبب سے ایک طاقت بن چکا تھا لیکن مقابل کی طاقتیں بھی زبر دست تھیں۔ اسلام کی فتح کا جیسا امکان تھا ویسا ہی کفر کی فتح کا بھی تھا۔ اس لیے مسلمانوں میں جو لوگ  منافق تھے وہ اسلامی جماعت میں رہتے ہوئے یہُودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ربط و ضبط رکھنا چاہتے تھے تاکہ یہ کشمکش اگر اسلام کی شکست پر ختم ہو تو ان کے لیے کوئی نہ کوئی جائے پناہ محفوظ رہے۔ علاوہ بریں اُس وقت عرب میں عیسائیوں اور یہودیوں کی معاشی قوت سب سے زیادہ تھی۔ ساہوکارہ بیشتر انہی کے ہاتھ میں تھا۔ عرب کے بہترین سرسبز و شاداب خطے ان کے قبضہ میں تھے۔ ان کی سُود خواری کا جال ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ لہٰذا معاشی اسباب کی بنا پر بھی یہ منافق لوگ ان کے ساتھ اپنے سابق تعلقات برقرار رکھنے کے خواہش مند  تھے۔ ان کا گمان تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کشمکش میں ہمہ تن منہمک ہو کر ہم نے ان سب قوموں سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے جن کے ساتھ اسلام اس وقت بر سرِپیکار ہے تو یہ فعل سیاسی اور معاشی دونوں حیثیتوں سے ہمارے لیے خطر ناک ہو گا۔