اس رکوع کو چھاپیں

ضمیمہ (بسلسلہ سورة المائدہ حاشیہ نمبر ۳۶)۔

اس سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنے پیرووں کا نام کبھی”عیسائی“ یا ”مسیحی“ نہیں رکھا تھا۔ کیونکہ وہ اپنے نام سے کسی نئے مذہب کی بنا ڈالنے نہیں آئے تھے۔ ان کی دعوت اُسی دین کو تازہ کرنے کی طرف تھی، جسے حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور ان سے پہلے اور بعد کے انبیاء علیہم السّلام لے کر آئے تھے۔ اس لیے انہوں نے عام بنی اسرائیل اور پیروانِ شریعت موسوی سے الگ نہ کوئی  جماعت بنائی اور نہ اس کا کوئی مستقل نام رکھا۔ ان کے ابتدائی پیرو خود بھی نہ اپنے آپ کو اسرائیلی مِلّت ساے الگ سمجھتے تھے، نہ ایک مستقل گروہ بن کر رہے،  اور نہ انہوں نے اپنے لیے کوئی امتیازی نام اور نشان قرار دیا۔ وہ عام یہودیوں کے ساتھ بیت الْمَقْدِس ہی کے ہیکل میں عبادت کرنے لیے جاتے تھے اور اپنے آپ کو موسوی شریعت ہی پر عمل کر نے کا پابند سمجھتے تھے (ملاحظہ ہو کتاب اعمال ۱:۳ – ۱۴:۱۰ – ۱:۱۵ ،  ۵- ۲۱:۲۱)۔

آگے چل کر جدائی کا عمل دو جانب سے شروع ہوا ۔ ایک طرف حضرت عیسیٰ ؑ کے پیرووں میں سے پولوس(سینٹ پال) نے شریعت کی پابندی ختم کر کے یہ اعلان کر دیا کہ  بس مسیح پر ایمان لے آنا نجات کےلیے کافی ہے۔ اور دوسری طرف یہودی علماء نے پیروانِ مسیح کو ایک گمراہ فرقہ قرار دے کر عامّۂ بنی اسرائیل سےکاٹ دیا۔ لیکن اس جدائی کے باوجود ابتداءً اس نئے فرقے کا کوئی خاص نام نہ تھا۔ خود پیروانِ مسیح اپنے لیے کبھی”شاگرد“ کا لفظ استعمال کرتے تھے اور کبھی اپنے رفقاء کا ذکر”بھائیوں“(اِخوان)،”ایمان داروں“(مؤمنین)، ”جو ایمان لائے“(الّذین اٰمنو) اور ”مقدسوں“ کے الفاظ سے کرتے تھے۔( کتاب اعمال ۴۴:۲ – ۳۲:۴ – ۲۶:۹ –  ۲۹:۱۱ –  ۵۲:۱۳ – ۱:۱۵ ، ۲۳ – رومیوں ۲۵:۱۵ – کُلُسیّوں ۲:۱ )۔ بخلاف اس کےیہودی ا ن لوگوں کو کبھی ”گلیلی“کہتے تھے اور کبھی”ناصریوں کا بدعتی فرقہ“ کہہ کر پکارتے تھے( اعمال ۵:۲۴ – لوقا ۲:۱۳ ) ۔ یہ نام دھرنے کی کوشش انہوں نے ازراہِ طنز و تشنیع اس بنا پر کی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا وطن ناصرہ تھا  اور وہ فلسطین کے ضلع کے گلیل میں واقع تھا۔ لیکن یہ طنزیہ الفاظ اس حد تک رائج  نہ ہو سکے کہ پیروانِ مسیح کے لیے نام کی حیثیت اختیار کر جاتے۔

اس گروہ کا موجودہ نام مسیحی(CHRISTIAN) پہلی مرتبہ سن ۴۳ یا سن ۴۴ عیسوی میں انطاکیہ کے مشرک باشندوں نے رکھا تھا، جب کہ سینٹ پال اور بَرْنَباس نے وہاں پہنچ کر اپنے مذہب کی تبلیغ ِ عام شروع کی (اعمال ۲۶:۱۱)۔ یہ نام بھی دراصل طنز و تمسخر کے طور پر مخالفین کی طرف سے رکھا گیا تھا ، اور پیروانِ مسیح اسے خود اپنے نام کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ لیکن جب ان کے دُشمنوں نے ان کو اسی نام سے پکارنا شروع کیا تو ان کے لیڈروں نے کہا کہ اگر تمہیں مسیح کی طرف نسبت دے کر ”مسیحی“ کہا جاتا ہے تو تمہیں اس پر شرمانے کی کیا ضرورت ہے (۱ – پطرش ۱۶:۴)۔ اس طرح رفتہ رفتہ یہ لوگ خود بھی اپنے آپ کو اسی نام سے موسوم کرنے لگے جس سے ان کے دشمنوں نے طنزاً انہیں موسوم کیا تھا، یہاں تک کہ آخر کار  ان کے اندر سے یہ احساس ہی ختم ہو گیا کہ یہ دراصل ایک بُرا لقب تھا جو انہیں دیا گیا تھا۔

قرآن مجید نے اسی لیے مسیح کے ماننے والوں کو مسیحی یا عیسائی کے نام سے یاد نہیں کیا ہے۔ بلکہ انہیں یاد دلایا ہے کہ تم دراصل ان لوگوں کے نام لیوا ہو جنہیں عیسیٰ  ابنِ مریم نے پکارا تھا کہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہ،” کون ہے جو  اللہ کی راہ میں میری  مدد کرے“، اور انہوں نے جواب دیا تھا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ،  ” ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں“۔ اس لیے تم اپنی ابتدائی اور بنیادی حقیقت کے اعتبار سے نصاریٰ یا انصار ہو۔ لیکن آج عیسائی مشنری اس یاددہانی پر قرآن کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اُلٹی شکایت کررہے ہیں کہ قرآن نے ان کو مسیحی کہنے کے بجائے نصاریٰ کے نام سے کیوں موسوم کیا!