اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر١۰١

”تمہارا رب بے نیاز ہے“ یعنی اس کی کوئی غرض تم سے اٹکی ہوئی نہیں ہے، اس کا کوئی مفاد تم سے وابستہ نہیں ہے کہ تمہاری نافرمانی سے اس کا کچھ بگڑ جاتا ہو، یا تمہاری فرماں برداری سے اس کو کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہو۔ تم سبمل کر سخت نافرمان بن جاؤ تو اس کی بادشاہی میں ذرہ برابر کمی نہیں کر سکتے ، اور سب کے سب مل کر اس کے مطیعِ فرمان اور عبادت گزار بن جاؤ تو اس کے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔ وہ نہ تمہاری سلامیوں کا محتاج ہے اور نہ تمہاری نذر و نیاز کا ۔ اپنے بے شمار خزانے تم پر لٹا رہا ہے بغیر ا س کے کہ ان کے بدلہ میں اپنے لیے تم سے کچھ چاہے۔

”مہربانی اس کا شیوہ ہے“۔ یہاں موقع و محل کے لحاظ سے اس فقرے کے دو مفہُوم ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارا رب تم کو راہِ راست پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور حقیقت نفس الامری کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے سے جو منع کرتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری راست روی سے اس کا کوئی فائدہ اور غلط روی سے اس کا  کوئی نقصان ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ راست روی میں تمہارا اپنا فائدہ اور غلط روی میں تمہارا اپنا نقصان ہے۔ لہٰذا یہ سراسر اس کی مہربانی ہے کہ وہ تمھیں اُس صحیح طرزِ عمل کی تعلیم دیتا ہے جس سے تم بلند مدارج تک ترقی کرنے کے قابل بن سکتے ہو اور اس غلط طرزِ عمل سے روکتا ہے جس کی بدولت تم پست مراتب کی طرف تنزّل کرتے ہو۔ دوسرے یہ کہ تمہارا ربّ سخت گیر نہیں ہے، تم کو سزا دینے میں اُسے کوئِ لُطف نہیں آتا ہے ، وہ تمھیں پکڑنے اور مارنے پر تُلا ہوا  نہیں ہے کہ ذرا تم سے قصُور سرزد ہو اور وہ تمہاری خبر لے ڈالے۔ درحقیقت وہ اپنی تمام تمام مخلوقات پر نہایت مہربان ہے، غایت درجہ کے رحم و کرم کے ساتھ خدائی کر رہا ہے، اور یہی اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ اسی لیے وہ تمہارے قصُور پر قصُور معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ تم نافرمانیاں کرتے ہو،  گناہ کرتے ہو، جرائم کا ارتکاب کرتے ہو، اس کے رزق سے پَل  کر بھی اس کے احکام سے منہ موڑتے ہو، مگر وہ حلم اور عفو ہی سے کام لیے جاتا ہےاور تمھیں سنبھلنے اور سمجھنے اور اپنی اصلاح کر لینے کے لیے مُہلت پر مُہلت دیے جاتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ تمھیں دنیا سے رخصت کر دیتا اور تمہاری جگہ کسی دُوسری قوم کو اُٹھا کھڑا کرتا، یا سارے انسانوں کو ختم کر کے کوئی اور مخلوق پیدا کر دیتا۔