اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر١۰٦

یہ لطیف طنز ہے اُن کی اس حرکت پر کہ وہ خدا کے نام سے جو حصّہ نکالتے تھے اس میں بھی طرح طرح کی چالبازیاں کر کے کمی کرتے رہتے تھے اور ہر صُورت سے اپنے خود ساختہ شریکوں کا حصّہ بڑھانے کی کوشش کرتے تھے ، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جو دلچسپی انھیں اپنے ان شریکوں سے ہے وہ خدا سے نہیں ہے ۔ مثلاً جو غلّے یا پھل وغیرہ خدا کے نام پر نکالے جاتے ان میں سے اگر کچھ گِر جاتا تو وہ شریکوں کے حصّہ میں شامل کر دیا جاتا تھا ، اور اگر شریکوں کے حصّہ میں سے گرتا، یا خدا کے حصّے میں مِل جاتا تو اُسے انہی کے حصّہ میں واپس کیا جاتا۔ کھیت کا جو حصّہ شریکوں کی نذر کے لیے مخصُوص  کیا جاتا تھا اگر اس میں سے پانی اُس حصّہ کی طرف پُھوٹ بہتا جو خدا کی نذر کے لیے مختص ہوتا تھا تو اس کی ساری پیداوار شریکوں کے حصّہ میں داخل کر دی جاتی تھی ، لیکن اگر اس کے برعکس صُورت پیش آتی تو خدا کے حصّہ میں کوئی اضافہ نہ کیا جاتا۔ اگر کبھی خشک سالی کی وجہ سے نذر و نیاز کا غلّہ خود  استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی تو خدا کا حصّہ کھالیتے تھے مگر شریکوں کے حصّہ کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی بلا نازل نہ ہو جائے۔ اگر کسی وجہ سے شریکوں کے حصّہ میں کچھ کمی آجاتی تو وہ خدا کے حصّہ سے پُوری کی جاتی تھی لیکن خدا کے حصّہ میں کمی ہوتی تو شریکوں کے حصّہ میں سے ایک حبّہ بھی اس میں نہ ڈالا  جاتا۔ اس طرزِ عمل پر کوئی نکتہ چینی کرتا تو جواب  میں طرح طرح کی دل فریب توجیہیں کی جاتی تھیں ۔ مثلاً کہتے تھے کہ خدا تو غنی ہے، اس کے حصّہ میں سے کچھ کمی بھی ہو جائے تو اُسے کیا پروا ہو سکتی ہے۔ رہے یہ شریک ، تو یہ بندے ہیں ، خدا کی طرح غنی نہیں ہیں، اس لیے ذرا سی کمی بیشی پر بھی ان کے ہاں گرفت ہو جاتی ہے۔

اِن توہّمات کی اصل جڑ کیا تھی، اس کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ جُہلائے عرب اپنے مال میں سے جو حصّہ خدا کے لیے نکالتے تھے ، وہ فقیروں ، مسکینوں ، مسافروں اور یتیموں وغیرہ کی مدد میں صَرف کیا جاتا تھا، اور جو حصّہ شریکوں کی نذر و نیاز کے لیے نکالتے تھے وہ یا تو براہِ راست مذہبی طبقوں کے پیٹ میں جاتا تھا یا آستانوں پر چڑھاوے کی صُورت میں پیش کیا جاتا اور اس طرح بالواسطہ مجاوروں اور پوجاریوں  تک پہنچ جاتا تھا۔ اسی لیے ان خود غرض مذہبی  پیشواؤں نے صدیوں کی مسلسل تلقین سے ان جاہلوں کے دل میں یہ بات بٹھائی تھی کہ خدا کے حصّہ میں کمی ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں ، مگر”خدا کے پیاروں“ کے حصّہ میں کمی نہ ہونی چاہیے بلکہ حتی الامکان کچھ بیشی ہی ہوتی رہے تو بہتر ہے۔