اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۱۲۲

یہ مضمون قرآن مجید میں تین مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ سُورۂ آلِ عمران میں فرمایا”کھانے کی یہ ساری چیزیں (جو شریعت محمدی میں حلال ہیں)بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ، البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنھیں توراۃ کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ ان سے کہو لاؤ توراۃ اور پیش کروا س کی کوئی عبارت اگر تم(اپنے اعتراض میں) سچے ہو“۔(آیت ۹۳)۔ پھر سُورہ ٔ نساء میں فرمایا کہ بنی اسرائیل کے جرائم کی بنا پر ”ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں“۔(آیت ۱۶۰)۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ ان کی سرکشیوں کی  پاداش میں ہم نے ان پر تمام ناخن والے جانور حرام کیے اور بکری اور گائے کی چربی بھی ان کے لیے حرام ٹھیرا دی۔ اِن تینون آیتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی ؐ  اور یہُودی فقہ کے درمیان حیوانی غذاؤں کی حِلّت و حُرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مَبنی ہے :

ایک یہ کہ نزولِ توراۃ سے صدیوں پہلے حضرت یعقوب ؑ (اسرائیل) علیہ السّلام نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی، حتٰی کہ یہُودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حُرمت توراۃ میں لکھ لی۔ اِن اشیاء میں اُونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں۔ آج بائیبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں اُن میں  ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے(احبار ۴:۱۱ – ۶ – استثناء ۷:۱۴ )۔ لیکن قرآن مجید میں یہودیوں کو جو چیلنج دیا گیا تھا کہ لاؤ توراۃ اور دکھاؤ یہ چیزیں کہاں حرام لکھی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر اس  وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لا کر پیش کر دیتے۔

دُوسرا فرق اس وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سے پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے خود حرام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انھیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا۔ ان اشیاء میں ایت تو ناخن والے جانور شامل ہیں ، یعنی شتر مُرغ ، قاز، بط وغیرہ۔ دُوسرے گائے اور بکری کی چربی۔ بائیبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکامِ توراۃ میں داخل کر دیا گیا ہے۔ (احبار ۱۶:۱۱ – ۱۸ – استثناء ۱۴:۱۴ – ۱۵ – ۱۶ – احبار ۱۷:۳  و ۲۲:۷ - ۲۳)۔ لیکن سُورہ ٔ نساء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں حرام نہ تھیں بلکہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد حرام  ہوئی ہیں ، اور تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ موجودہ یہودی شریعت کی تدوین دُوسری صدی عیسوی کے آخر میں رَبّی یہوداہ کے ہاتھوں مکمل ہوئی ہے۔

رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور  سُورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حَرَّمْنَا (ہم نے حرام کیا) کا لفظ کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صُورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کرے۔ بلکہ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلّط کر دے اور وہ ان پر طیّبات کو حرام کر دیں۔ پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دُوسری قسم کی تحریم اس کی پھِٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے۔