اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۱۳۵

اوپر جس فطری عہد کا ذکر ہوا ، یہ اس عہد کا لازمی اقتضا ہے کہ انسان اپنے رب کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے، کیونکہ اس کے امر کی پیروی سے منہ موڑنا اور خود سری و خود مختاری یا بندگیِ غیر کی جانب قدم بڑھانا انسان کی طرف سے اُس عہد کی اوّلین خلاف ورزی ہے جس کے بعد ہر قدم پر اس کی دفعات ٹوٹتی چلی جاتی ہیں ۔ علاوہ بریں اس نہایت نازک، نہایت وسیع اور نہایت پیچیدہ عہد کی ذمہ داریوں سے انسان ہر گز عہدہ برآ نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اس کے بتائے ہوئے راستہ پر زندگی بسر نہ کرے۔ اس کو قبول نہ کرنے کے دو زبردست نقصان ہیں۔ ایک یہ کہ ہر دُوسرے راستہ کی پیروی لازماً انسان کو اس راہ سے ہٹا دیتی ہے جو خدا کے قرب اور اس کی رضا تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے۔ دُوسرے یہ کہ اس راہ سے ہٹتے ہی بے شمار پگڈنڈیاں سامنے آجاتی ہیں  جن میں  بھٹک کر پُوری نوعِ انسانی پراگندہ ہو جاتی ہےاور اس پراگندگی کے ساتھ ہی اس کے بلوغ و ارتقاء کا خواب بھی پریشان ہو کر  رہ جاتا ہے ۔ انہی دونوں نقصانات کو اس فقرے میں بیان کیا گیا ہے کہ ”دُوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے“۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ مائدہ ، حاشیہ نمبر ۳۵