اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر١۴١

خطاب بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، اور آپ کے واسطہ سے دینِ حق کے تمام پیرو اس کے مخاطب ہیں ۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے یہی رہا ہے  اور اب بھی یہی ہے کہ ایک خداکو الٰہ اور ربّ مانا جائے۔ اللہ کی ذات، صفات ، اختیارات اور حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے آخرت پر ایمان لایا جائے ، اور اُن وسیع اُصُول و کُلّیات کے مطابق زندگی بسر کی جائے جن کی تعلیم اللہ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ سے دی ہے۔ یہی دین تمام انسانوں کو اوّل یومِ پیدائش سے دیا گیا تھا۔ بعد میں جتنے مختلف مذاہب بنے وہ سب کے سب اس طرح بنے کہ مختلف زمانوں کے لیے لوگوں نے اپنے ذہن کی غلط اُپَچ سے ، یا خواہشاتِ نفس کے غلبہ سے، یا عقیدت کے غلو سے اس دین کو بدلا اور اس میں نئی نئی باتیں ملائیں ۔ اس کے عقائد میں اپنے اوہام و قیاسات اور فلسفوں سے کمی  و بیشی اور ترمیم و تحریف کی۔ اس کے احکام میں بدعات کے اضافے کیے۔ خود ساختہ قوانین بنائے۔ جُزئیات میں موشگافیاں کیں۔ فروعی اختلافات میں مبالغہ کیا۔ اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنایا۔ اس کے لانے والے انبیاء اور اس کے علمبردار بزرگوں میں سے کسی کی عقیدت میں غلو کیا اور کسی کو بغض و مخالفت کا نشانہ بنایا۔ اس طرح بے شمار مذاہب اور فرقے بنتے چلے گئے اور ہر مذہب و فرقہ کی پیدائش نوعِ انسانی کو متخاصم گروہوں میں تقسیم کرتی چلی گئی۔ اب جو شخص بھی اصل دین ِ حق کا پیرو ہو اس کے لیے ناگیر ہے کہ ان ساری گروہ بندیوں سے الگ ہو جائے اور ان سب سے اپنا راستہ جدا کر لے۔