اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۲١

واقعہ یہ ہے کہ  جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی آیات سنانی شروع نہ کی تھیں، آپ کی قوم کے سب لوگ آپ کو امین اور صادق سمجھتے تھے اور آپ کی راستبازی پر کام اعتماد رکھتے تھے۔ انہو ں نے آپ کو جھٹلایا اُس وقت جبکہ آپ نے اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانا شروع کیا۔ اور اس دُوسرے دَور میں بھی ان کے اندر کوئی شخص ایسا نہ تھا کہ جو شخصی حیثیت سے آپ کو جھوٹا قرار دینے کی جرأت کر سکتا ہو۔ آپ کے کسی سخت سے سخت مخالف نے بھی کبھی آپ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ آپ دنیا کے کسی معاملہ میں کبھی جھُوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے جتنی آپ کی تکذیب کی وہ محض نبی ہونے کی حیثیت سے کی۔ آپ کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل تھا اور حضرت علی ؓ  کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا   انا  لا نکذ بک ولکن نکذبُ ما جئت بہٖ   ” ہم آپ کو تو جھوٹا نہیں کہتے ، مگر جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں اُسے جھوٹ قرار دیتے ہیں“۔ جنگ ِ بدر کے موقع پر اَخْنَس بن شَرِیق نے تخلیہ میں ابُو جہل سے پُوچھا کہ یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں ہے ، سچ بتاؤ کہ محمد ؐ تم  سچا سمجھتے ہو یا جھُوٹا؟ اس نے جواب دیا کہ ”خدا کی قسم محمد ؐ  ایک سچا آدمی ہے ، عمر بھر کبھی جھُوٹ نہیں بولا، مگر جب لِواء اور سقایت اور حجابت اور نبوّت سب کچھ بنی قُصَیّ ہی کے حصّہ میں آجائے تو بتاؤ باقی سارے قریش کے پاس کیا رہ گیا؟“ اسی بناپر  یہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسلّی دے رہا ہے کہ تکذیب دراصل تمہاری نہیں بلکہ ہماری کی جارہی ہے ، اور جب ہم تحمل و بُردباری کے ساتھ اسے برداشت کیے جا رہے ہیں اور ڈھیل پر ڈھیل دیے جاتے ہیں تو تم کیوں مضطرب ہوتے ہو۔