اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۳١

نادان لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ سے یہ احمقانہ تصوّر رہا ہے کہ جو شخص خدا رسیدہ ہواسے انسانیت سے ماوراء ہونا چاہیے، اُس سے عجائب و غرائب صادر ہونے چاہییں ، وہ ایک اشارہ کرے اور پہاڑ سونے کا بن جائے، وہ حکم دے اور زمین سے خزانے اُبلنے لگیں ، اس پر لوگوں کے اگلے پچھلے سب حالات روشن ہوں، وہ بتا دے کہ گم شدہ چیز کہاں رکھی ہے ، مریض بچ جائے گا، حاملہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ۔ پھر اس کو انسانی کمزوریوں اور محدودیتوں سے بھی بالاتر ہونا چاہیے۔ بھلا وہ بھی کوئی خدا رسیدہ ہوا جسے بھُوک اور پیاس لگے، جس کو نیند آئے ، جو بیوی بچّے رکھتا ہو، جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خرید و فروخت کرتا پھرے۔ جسے کبھی قرض لینے کی ضرورت پیش آئے اور کبھی وہ مفلسی و تنگ دستی میں مبتلا ہو کر پریشان حال رہے۔ اسی قسم کے تصوّرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین کی ذہنیّت پر مسلّط تھے۔ وہ جب آپ ؐ سے پیغمبری کا دعوٰی سُنتے تھے  تو آپ ؐ کی صداقت جانچنے کے لیے آپ ؐ سے غیب کی خبریں پوچھتے تھے ، خوارق عادت کا مطالبہ کرتے تھے ، اور آپ  کو بالکل عام انسانوں جیسا ایک انسان دیکھ کر اعتراض کرتے تھے کہ یہ اچھا پیغمبر ہے جو کھاتا  پیتا ہے، بیوی بچّے رکھتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ انہی باتوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔