اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۵۲

اس مقام کو اور قرآن کے اُن دُوسرے مقامات کو جہاں حضرت ابراہیم ؑ  سے اُن کی قوم کی نزاع کا ذکر آیا  ہے، اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ  کی قوم کے مذہبی و تمدّنی حالات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ جدید اثری تحقیقات کے سلسلہ میں نہ صرف وہ شہر دریافت ہو گیا ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ پیدا ہوئے تھے ، بلکہ دَور ِ ابراہیمی میں اُس علاقے کے لوگوں کی جو حالت تھی اس پر بھی بہت کچھ روشنی پڑی ہے۔ سر لیو نارڈو وُلی (Sir Leonard Woolley)نے اپنی کتاب ( London, 1935Abraham,“) میں اس تحقیقات کے جو نتائج شائع کیے ہیں ان کا خلاصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔

اندازہ کیا گیا ہے کہ سن ۲۱۰۰ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ، جسے اب عام طور پر محققین حضرت ابراہیم ؑ  کے ظہُور کا زمانہ تسلیم کرتے ہیں ، شہر اُرکی آبادی ڈھائی لاکھ کے قریب تھی اور بعید نہیں کہ پانچ لاکھ ہو۔ بڑا صنعتی و تجارتی مرکز تھا۔ ایک طرف پامیر اور نیلگری تک سے وہاں مال آتا تھا اور دُوسری  طرف اناطولیہ  تک سے اس کے تجارتی تعلقات تھے ۔ جِس ریاست کا یہ صدر مقام تھا اس کے حدود موجودہ حکومت ِ عراق سے شمال میں کچھ کم اور مغرب میں کچھ زیادہ تھے ۔ ملک کی آبادی بیشتر صنعت  و تجارت پیشہ تھی۔ اس عہد کی جو تحریرات آثارِ قدیمہ کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں ان لوگوں کا نقطۂ نظر خالص مادّہ پرستانہ تھا۔ دولت کمانا اور زیادہ سے زیادہ آسائش فراہم کرنا ان کا سب سے بڑا مقصدِ حیات تھا۔ سُود خواری کثرت سے پھیلی ہوئی تھی۔ سخت کاروباری قسم کے لوگ تھے۔ ہر ایک دُوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور آپس میں بہت مقدمہ بازیاں ہوتی تھیں۔ ا پنے خداؤں سے ان کی دُعائیں زیادہ تر درازیِ عمر ، خوش حالی اور کاروبار کی ترقی سے متعلق ہوا کرتی تھیں۔ آبادی تین طبقوں پر مشتمل تھی:

(۱) عَمیلو  - یہ اُونچے طبقے کے لوگ تھے جن میں پُجاری ، حکومت کے عہدہ دار اور فوجی افسر وغیرہ شامل تھے۔

(۲) مِشکینو - یہ تجار، اہلِ صنعت اور زراعت پیشہ لوگ تھے۔

(۳)  اَردو  -  یعنی غلام۔

ان میں سے پہلے طبقہ ، یعنی عَمیلو کو خاص امتیازات حاصل تھے۔ ان کے فوجداری اور دیوانی حقوق دُوسروں سے مختلف تھے، اور ان کی جان و مال کی قیمت دُوسروں سے بڑھ کر تھی۔

یہ شہر اور یہ معاشرہ تھا جس میں حضرت ابراہیم ؑ نے آنکھیں کھولیں۔ ان کا اور ان کے خاندان کا جو حال ہمیں تَلمود میں ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عَمیلو طبقہ کے ایک فرد تھے اور ان باپ ریاست کا سب سے بڑا عہدہ دار تھا۔(دیکھو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۹۰

اُر کے کتبات میں تقریباً ۵ ہزار خداؤں کے نام ملتے ہیں۔ ملک کے مختلف  شہروں کے الگ الگ خدا تھے۔ ہر شہر کا ایک خاص محافظ خدا ہوتا تھا  جو ربُّ البلد، مہادیو، یا رئیس الآ لہہ سمجھا  جاتا تھا اور اس کا احترام دُوسرے معبُودوں سے زیادہ ہوتا تھا۔ اُرکا ربّ البلد ات میں تقریباً ۵ ہزار خداؤں کے نام ملتے ہیں ہمیں تَلمود میں ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عَمیلو طبقہ کے ایک فرد تھے”نَنّار“(چاند دیوتا) تھا اور اسی مناسبت سے بعد کے لوگوں نے اس شہر کا نام”قمرینہ“ بھی لکھا ہے۔ دُوسرا بڑا شہر لَرسہ تھا جو بعد میں اُر کے بجائے مر کزِ سلطنت ہوا۔ اُس کا ربّ البلد”شماش“ (سُورج دیوتا) تھا۔ ان بڑے خداؤں کے ماتحت بہت سے چھوٹے خدا بھی تھے جو زیادہ تر آسمانی تاروں اور سیاروں میں سے اور کم تر زمین سے منتخب کیے گئے تھے اور لوگ اپنی مختلف فروعی ضروریات ان سے متعلق سمجھتے تھے۔ ان آسمانی اور زمینی دیوتاؤں اور دیویوں کی شبیہیں بُتوں کی شکل میں بنالی گئی تھیں اور تمام مراسمِ عبادت انہی کے آگے بجا لائے جاتے تھے۔

ں میں سے اور کم تر زمینہہ سمجھا  جاتا تھ”ننار“ کا بُت اُر میں سب سے اُونچی پہاڑی پر ایک عالی شان عمارت میں نصب تھا۔ اسی کے قریب”ننار“ کی بیوی”نن گل“ کا مَعبد تھا۔ ننار کے مَعبد کی شان ایک شاہی محل سرا کی سی تھی۔ اس کی خواب گاہ میں روزانہ رات کو ایک پوجا رن جا کر اس کی دُلہن بنتی تھی۔ مندر میں بکثرت عورتیں دیوتا کے نام پر وقت تھیں اور ان کی حیثیت دیوداسیوں(Religious Prostitutes) کی سی تھی۔ وہ عورت بڑی معزّز خیال کی جاتی تھی جو ”خدا “ کے نام پر اپنی بکارت قربان کر دے۔ کم از کم ایک مرتبہ اپنے آپ کو ”راہِ خدا“ میں کسی اجنبی کے حوالہ کرنا عورت کے لیے ذریعہ ٔ نجات خیال کیا جاتا تھا۔ اب یہ بیان کرنا کچھ ضروری نہیں  کہ اس مذہبی قحبہ گری سے مستفید ہونے والے زیادہ تر پوجاری حضرات ہی ہوتے تھے۔

 ننار محض دیوتا  ہی نہ تھا بلکہ ملک کا سب سے بڑا زمیندار ، سب سے بڑا تاجر، سب سے بڑا کارخانہ دار اور ملک کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا حاکم بھی تھا۔ بکثرت باغ، مکانات اور زمینیں اس مندر کے لیے وقت تھیں۔ اس جائداد کی آمدنی کے علاسہ  وہ کسان، زمیندار ، تجّار سب ہر قسم کے غلّے ، دُودھ ، سونا ، کپڑا اور دُوسری چیزیں لا کر مندر میں نذر بھی کرتے تھے جنہیں وصُول کرنے کے لیے مندر میں ایک بہت بڑا اسٹاف موجود تھا۔ بہت سے کارخانے مندر کے ماتحت قائم تھے۔ تجارتی کاروبار  بھی بہت بڑے پیمانے پر مندر کی طرف سے ہوتا تھا۔ یہ سب کام دیوتا کی نیابت میں پوجاری ہی انجام دیتے تھے۔ پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت مندر ہی تھی۔ پوجاری اس کے جج تھے اور ان کے فیصلے”خدا“ کے فیصلے سمجھے جاتے تھے۔ خود شاہی خاندان کی حاکمیت بھی ننار ہی سے ماخوذ تھی۔ اصل بادشاہ ننار تھا اور فرماں روائے ملک اس کی طرف سے حکومت کرتا تھا۔ اس تعلق سے بادشاہ خود بھی معبُودوں میں شامل ہو جاتا تھا اور خداؤں کے مانند اس کی پرستش کی جاتی تھی۔

اُر کا شاہی خاندان جو حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ میں حکمران تھا، اس کے بانیٔ اوّل کا نام اُرنَمُوّ تھا جس نے ۲۳۰۰ برس قبل مسیح میں ایک وسیع سلطنت قائم کی تھی۔ اس کے حُدُودِ مملکت مشرق  میں سوسہ سے لے کر مغرب میں لُبنان تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُسی سے اس خاندان کو ”نَمُوّ“ کا نام ملا جو عربی میں جا کر نمرود ہو گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی ہجرت کے بعد اس خاندان اور اس قوم پر مسلسل تباہی نازل ہونی شروع ہوئی۔ پہلے عیلامیوں نے اُر کو تباہ کیا  اور نمرُود کےننار کے بُت سمیت پکڑ لے گئے۔ پھر لرسہ میں ایک عیلامی حکومت قائم ہوئی جس کے ماتحت اُر کا علاقہ غلام کی حیثیت سے رہا۔ آخر کار ایک عربی النسل خاندان کے ماتحت بابِل نے زور پکڑا اور لرسہ اور اُر دونوں اس کے زیرِ حکم ہو گئے۔ ان تباہیوں نے ننار کے ساتھ اُر کے لوگوں کا عقیدہ متزلزل کر دیا کیونکہ وہ ان کی حفاظت نہ کر سکا۔

تعیّن کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ بعد کے ادوار میں حضرت ابراہیم ؑ  کی تعلیمات کا اثر اس ملک کے لوگوں نے کہا ں تک قبول کیا۔ لیکن سن ۱۹۱۰  قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ حمورائی (بائیبل کے اَمُرافیل) نے جو قوانین مرتب کیے تھے  وہ شہادت دیتے ہیں کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کی تدوین  میں مشکوٰۃِ نبوّت سے حاصل کی ہوئی روشنی کسی حد تک ضرور کار فرما تھی۔ ان قوانین کا مفصل کتبہ سن ۱۹۰۲ بعد مسیح میں ایک فرانسیسی مفتش آثارِ قدیمہ کو ملا اور اس کا انگریزی ترجمہ  C.H.W. John  نے سن ۱۹۰۳ بعد مسیح میں( The Oldest Code of Law ) کے نام سے شائع کیا۔ اس ضابطۂ قوانین کے بہت سے اُصُول اور فروع موسوی شریعت سے مشابہت رکھتے ہیں۔

یہ اب تک  کی اثری تحقیقات کے نتائج اگر صحیح ہیں تو ان سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم میں شرک محض ایک مذہبی عقیدہ اور بُت پرستانہ عبادات کا مجمُوعہ ہی نہ تھا بلکہ درحقیقت اس قوم کی پُوری معاشی ، تمدّنی ، سیاسی اور معاشرتی زندگی کا نظام اسی عقیدے پر مبنی تھا۔ اس کے مقابلہ میں حضرت ابراہیم ؑ توحید کی جو دعوت لے کر اُٹھے تھے اس کا اثر صِرف بُتوں کی پرستش ہی پر نہ پڑتا تھا بلکہ  شاہی خاندان کی معبُودیت اور حاکمیت، پوجاریوں اور اُونچے طبقوں کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی حیثیت ، اور پورے ملک  کی اجتماعی زندگی اس کی زد میں آئی جاتی تھی۔ اُن کی دعوت کی قبول کرنے کے معنی یہ تھے کہ نیچے سے اُوپر تک ساری سوسائیٹی کی عمارت ادھیڑ ڈالی جائے اور اسے ازسرِ نو توحیدِ الٰہ کی بُنیاد پر تعمیر کیا جائے۔ اِسی لیے ابراہیم علیہ السّلام کی آواز بلند ہوتے ہی عوام اور خواص، پوجاری اور نمرود سب کے سب بیک وقت اس کو دبانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔