اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۶

یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لینے کے لیے جو مُہلت تمہیں ملی ہوئی ہے یہ اُسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردۂ غیب میں پوشیدہ ہے۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا، پھر مُہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا۔ اُس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی  رہ جائے گا۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی تمہارے لیے ایک امتحان کا زمانہ ہے، اور امتحان اس امر کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر عقل و فکر کے صحیح استعمال سے اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں، اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لا کر اپنے عمل کو حقیقت کے مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں۔ اس امتحان کے لیے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے ، اور تمہاری دُنیوی زندگی ، جو دراصل مہلتِ امتحان ہے، اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک غیب، غیب ہے۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا، مہلت لازماً ختم ہو جائے گی اور امتحان کے بجائے نتیجہ ٔ امتحان نکلنے کا وقت آپہنچے گا۔ لہٰذا تمہارے مطالبہ کے جواب  میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمہارے سامنے فرشتے کو اس کی اصلی صُورت میں نمایاں کر دیا جائے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ابھی تمہارے امتحان کی مدّت ختم نہیں کر نا چاہتا۔(ملاحظہ ہو سُورہ ٔ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۲۸)