اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر٦۹

یہ فقرہ اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہے مگر نبی ؐ کی طرف سے ادا ہو رہا ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح مخاطب بار بار بدلتے ہیں کہ کبھی نبی ؐ سے خطاب ہوتا ہے، کبھی اہلِ ایمان سے ، کبھی اہلِ کتاب سے ، کبھی کفّار و مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہلِ عرب سے اور کبھی عام انسانوں سے ، حالانکہ اصل غرض پوری نوعِ انسانی کی ہدایت ہے، اسی طرح متکلّم بھی بار بار بدلتے ہیں کہ کہیں متکلّم خدا ہوتا ہے ، کہیں وحی لانے والا فرشتہ ، کہیں فرشتوں کا گروہ، کہیں نبی ؐ ، اور کہیں اہلِ ایمان ، حالانکہ ان سب صُورتوں میں کلام وہی ایک خدا کا کلام ہوتا ہے۔

ار و مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہلِ عرب سے اور”میں تم پر پاسبا ن نہیں ہوں“ یعنی میرا کام بس اتنا  ہی ہے کہ اس روشنی کو تمہارے سامنبے پیش کر دوں۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر دیکھنا  یا نہ دیکھنا تمہارا اپنا کام ہے۔ میرے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے  کہ جنھوں نے خود آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان کی آنکھیں زبردستی کھولوں اور جو کچھ وہ نہیں دیکھتے وہ انھیں دکھا کر ہی چھوڑوں۔