اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۷۰

یہ وہی بات ہے جو سُورۂ بقرہ رکوع ۳ میں فرما دی گئی ہے کہ مچھّر اور مکڑی وغیرہ  چیزوں کی تمثیلیں سن کر حق کے طالب تو اس صداقت کو پالیتے ہین جو ان تمثیلوں کے پیرایہ میں بیان ہوئی ہے، مگر جن پر انکار کا تعصّب مسلّط ہے وہ طنز سے کہتے ہیں کہ بھلا اللہ کے کلام میں ان حقیر چیزوں کے ذکر کا کیا کام ہو سکتا ہے۔ اُسی مضمون کا یہاں ایک دُوسرے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے ۔ کہنے کا مدّعا یہ ہے کہ یہ کلام لوگوں کے لیے آزمائش بن گیا ہے جس سے کھوٹے اور کھرے انسان ممیّز ہو جاتے ہیں۔ ایک طرح کے انسان وہ ہیں جو اس کلام کو سُن کر یا پڑھ کر اس کے مقصد و مدّعا پر غور کرتے ہیں اور جو حکمت و نصیحت کی باتیں اس میں فرمائی گئی ہیں ان سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ بخلاف اس کے دُوسری طرح کے انسانوں کا حال یہ ہے کہ اسے سُننے اور پڑھنے کے بعد ان کا ذہن مغزِ کلام کی طرف متوجّہ ہونے کے بجائے اس ٹٹول میں لگ جاتا ہے کہ آخر یہ اُمّی انسان یہ مضامین لایا کہاں سے ہے، اور چونکہ مخالفانہ تعصّب پہلے سے ان کے دل پر قبضہ کیے ہوئے ہوتا ہے اس لیے ایک خدا کی طرف سے نازل شدہ ہونے کے امکان کو چھوڑ کر باقی تمام ممکن التّصور صُورتیں وہ اپنے ذہن سے تجویز کر تے ہیں اور انھیں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا انھوں نے اس کتاب کے ماخذ کی تحقیق کر لی ہے۔