یہاں ہماری سابق تشریحات کے علاوہ یہ حقیقت بھی اچھی
طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی مشِیَّت اور
اس کی رضا میں بہت بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کر دینے سے
بالعمُوم شدید غلط فہمیاں واقع ہوتی ہیں۔ کسی چیز کا اللہ کی مشیّت
اور اس کے اذن کے تحت رُونما ہونا لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ
اس سے راضی بھی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے۔ دُنیا میں کوئی واقعہ کبھی
صُدُور میں نہیں آتا جب تک اللہ اس کے صُدُور کا اذن نہ دے اور اپنی عظیم
الشان اسکیم میں اس کے صُدُور کی گنجائش نہ نکالے اور اسباب کو اس حد تک
مساعد نہ کر دے کہ وہ واقعہ صادر ہو سکے۔ کسی چور کی چوری، کسی قاتل کا
قتل، کسی ظالم و مفسد کا ظلم و فساد اور کسی کافر و مشرک کا کفر و شرک اللہ
کی مشیّت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور اسی طرح کسی مومن اور کسی متقی انسان
کا ایمان و تقویٰ بھی مشیّت ِ الہٰی کے بغیر محال ہے۔ دونوں قسم کے واقعات
یکساں طور پر مشِیَّت کے تحت رُونما ہوتے ہیں۔ مگر پہلی قسم کے واقعات سے
اللہ راضی نہیں ہے اور اس کے برعکس دُوسری قسم کے واقعات کو اُس کی رضا اور
اس کی پسند یدگی و محبُوبیّت کی سند حاصل ہے۔ اگر چہ آخر کار کسی خیرِ عظیم
ہی لیے فرمانروائے کائنات کی مشیّت کام کر رہی ہے ، لیکن اُس خیرِ عظیم کے
ظہُور کا راستہ نور و ظلمت ، خیر و شر اور صلاح و فساد کی مختلف قوتوں کے
ایک دُوسرے کے مقابلہ میں نبرد آزما ہونے ہی سے صاف ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی
بزرگ تر مصلحتوں کی بنا پر وہ طاعت اور معصیت ، ابراہیمیت
اور نمرود یّت، موسویّت اور فرعونیّت ، آدمیّت اور شیطنت ، دونوں کو اپنا
اپنا کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق(جِن
و انسان) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کر لینے کی آزادی عطا کر
دی ہے۔ جو چاہے اس کا ر گاہِ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کر لے اور
جو چاہے شر کا کام۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت
دیتی ہیں، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی
پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے
اور اللہ کو محبُوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ
اُٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو۔ |