اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۱۰

تقابل کےلیے ملاحظہ ہو سورہ البقرہ۔ آیات ۳۰ تا ۳۹۔
سورہ بقرہ میں حکم سجدہ کا ذکر  جن الفاظ میں آیا ہے ان سے شبہ ہو سکتا تھا کہ فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم صرف آدم علیہ السلام کی شخصیت کے لیے دیا گیا تھا۔ مگر یہاں وہ شبہ دور ہو جاتا ہے۔ یہاں جو اندازِ بیان  اختیار کیا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم  ہونے کی حیثیت سےنہیں بلکہ نوع انسانی کا نمایندہ فرد ہونے کی حیثیت سے تھا۔
اور یہ جو فرمایا کہ ”ہم نے تمہاری تخلیق کی ابدا کی، پھر تمہیں صورت بخشی ، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو،“اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ  بنایا اور تمہار مادہ آفرینش تیار کیا، پھر اس مادے کوانسانی صورت عطا کی ، پھر جب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آگیا تو اسے سجدہ کرنے کے لیے  فرشتوں کو حکم دیا۔اس آیات کی یہ تشریح خود قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ مثلاً سورہ صٓ میں ہے اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ ° فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ°(آیات ۷۱ ۔ ۷۲)”تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے  فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر مٹی سے پیدا کرنے  والا ہوں، پھر جب میں اُسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر جانا۔“اس آیت میں وہی تین مراتب ایک دوسرے انداز میں بیان کیے گئے ہیں، یعنی پہلے مٹی سے ایک بشر کی تخلیق ، پھر اس کا تسویہ، یعنی اس کی شکل و صورت بنانا اور اس کے اعضاء اور اس کی قوتوں کا تناسب قائم کرنا ، پھر اس کے اندر اپنی روح سےکچھ پھونک  کہ آدم کو وجود میں لے آنا۔اسی مضمون کو سورہِ حِجْرمیں بایں الفاظ ادا کیا گیا ہے، وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ اِنِّیْ خَالِقٌ ۢبَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ° فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ ° (آیات ۲۸۔۲۹)”اور تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اُسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔“
تخلیقِ انسانی کے اِس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیّت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے ۔ ہم اس حقیقت کا پوری طرح اوراک نہیں کر سکتے کہ موادِارضی سے بشر کس طرح بنایا گیا ، پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی، اور اس کے اندر روح بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانہ میں ڈاروِن کے متبعین سائینس کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔ ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارح سے ترقی کرتا ہوا متبئہ انسانیت تک پہنچتا ہے اور اس تدریجی ارتقاء کے طویل خط میں کوئی نقطئہ خاص ایسا نہیں ہو سکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ”نوعِ انسانی “کا آغاز تسلیم کیا جائے۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ  انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے، اُس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاًکوئی رشتہ نہیں رکھتی، وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا اور خدا  نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔
انسانیت کی تاریخ کے متعلق یہ دو مختلف نقطئہ نظر ہیں اور ان سے انسانیت کے وہ بالکل مختلف تصوّر پیدا ہوتے ہیں۔ایک تصور کو اختیار کیجیے تو آپ کو انسان اصلِ حیوانی کی ایک فرع نظر آئے گا۔ اس کی زندگی کے جملہ قوانین، حتٰی کہ اخلاقی قوانین کےلیے بھی آپ بنیادی اصول اُن قوانین میں تلاش کریں گے جن کے تحت حیوانی زندگی چل رہی ہے۔ اُس کے لیے حیوانات کاسا طرزِ عمل آپ کو بالکل ایک فطری طرزِ عمل معلوم ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق انسانی طرز عمل اور حیوانی طرز عمل میں آپ دیکھنا چاہیں گے وہ بس اتنا ہی ہو گا کہ حیوانات جو کچھ آلات اور ضائع اور تمدنی آرائشوں اور تہذیبی نقش و نگار کے بغیر کرتے ہیں انسان وہی سب کچھ ان چیزوں کے ساتھ کر لے۔ اس کے بر عکس دوسرا تصوّر اختیار کرتے ہی آپ انسان کو جانور کے بجائے”انسان“ہونے کی حیثیت  سے دیکھیں گے۔ آپ کی نگاہ میں وہ ”حیوانِ ناطق“یا ”متمدن جانور“(                               )نہیں ہو گا بلکہ زمین پر خدا کا خلیفہ ہوگا۔ آپ کے نزدیک وہ چیز جو اُسے دوسری مخلوقت سے ممتاز کرتی ہے اس کا نطق یا اس کی اجتماعیت نہ ہو گی بلکہ ا س کی اخلاقی ذمہ داری اور اختیارات کی وہ امانت ہو گی جسے خدا نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بنا پر وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسانیت اور اس کے جملہ  متعلقات پر آپ کی نظر پہلے زاویہ نظر سے یک سر مختلف ہو جائے گی۔ آپ انسان کے لیے ایک دوسرا ہی فلسفہ حیات اور ایک دوسرا ہی نظامِ اخلاق و تمدّن و قانون طرب کرنے لگیں گے اور اس فلسفے اور اس نظام  کے اصول و مبادی تلاش کرنے کے لیے آپ کی نگاہ خود بخود عالم اسفل کے بجائے عالم بالا کی طرف اُٹھنے لگے گی۔
اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ دوسرا تصور انسان چاہے اخلاقی اور نفسیای حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایک ایسے نظریہ کو کس طرح رد کردیا  جائے جو سائنٹیفک دلائل سے ثابت ہے“ لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیافی الواقع ڈار وینی نظریہ ارتقاء سائنٹیفک دلائل سے”ثابت ہو چکا ہے؟ سائنس سے محض سر سری واقفیت رکھنے والے لوگ تو بے شک اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ نظر یہ ایک ثابت شدہ علمی حقیقت بن چکا ہے، لیکن محققین اس بات کو جانتے ہیں کہ الفاظ اور ہڈیوں کے لمبے چوڑے سرو سامان کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائل ثبوت کہا جا تا ہے وہ دراصل محض دلائل اِمکان ہیں، یعنی ان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاروینی ارتقاء کا ویسا ہی امکا ن ہے جیسا براہِ راست عملِ تخلیق سے ایک ایک نوع کے الگ الگ وجود میں آنے کا امکان ہے۔