اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر١۰۵

 ضائع ہوگئے، یعنی بار آور نہ ہوئے، غیر مفید اور لاحاصل نکلے۔ اس لیے کہ خدا کےہاں انسانی سعی و عمل کے بار آور ہونے کا انحصار بالکل دو امور پر ہے۔ ایک یہ کہ وہ سعی و عمل خدا کے قانون شرعی کی پابندی میں ہو۔ دوسرے یہ کہ اس سعی و عمل میں دنیا کے بجائے آخرت کی کامیابی پیش نظر ہو۔ یہ دو شرطیں جہاں پوری نہ ہوں گی وہاں لازماً حبطِ عمل واقع ہوگا۔ جس خدا سے ہدایت لیے بغیر بلکہ اس سے منہ موڑ کر باغیانہ انداز پر دنیا میں کام کیا، ظاہر ہے کہ وہ خدا سے کسی اجر  کی توقع رکھنے کا کسی طرح حقدار نہیں ہو سکتا۔ اور جس نے سب کچھ دنیا ہی کے لیے کیا ، اور آخرت کے لیےکچھ نہ کیا، کھلی بات ہے کہ آخرت میں اسے کوئی ثمرہ پانے کی اُمید نہ رکھنی چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہاں وہ کسی قسم کا ثمرہ پائے۔ اگر میری مملوکہ زمین میں کوئی شخص میرے منشا کہ خلاف تصرف کرتا رہا ہے تو وہ مجھ سے سزا پانے کے سوا آخر اور کیا پانے کا حق دار ہو سکتا ہے؟ اور اگر اس زمین پر اپنے خاصبانہ قبضہ کے زمانہ میں اس نے سارا کام خود ہی اس ارادہ  کے ساتھ کیا ہو کہ جب تک اصل مالک اس کی جرٲت ِ بے جا سے اغماض کر رہا ہے، اسی وقت تک وہ اس سے فائدہ اُٹھائے گا اور مالک کے قبضہ میں زمین واپس چلے جانے کے بعد وہ خود بھی کسیِ فائدے کا متوقع یا طالب نہیں ہے، توآخر کیا وجہ ہے کہ میں اس غاصب سے اپنی زمین واپس لینے کے بعد زمین کی پیداوار میں سے کوئی حصّہ خواہ مخواہ اسے دوں؟