اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر ۱۱۹

اوپر جس تنظیم کا ذکر کیا گیا ہے وہ منجملہ اُن احسانات کے تھی جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ اس کے بعد اب مزید تین احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ جزیرہ نمائے سینا کے بیابانی علاقہ میں  ان کے لیے پانی کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا۔دوسرے یہ کہ ان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے آسمان پر بادل چھا دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ ان کے لیے خوراک کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام من و سلویٰ کے نزول کی شکل میں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر ان تین اہم ترین ضروریاتِ زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی، اس علاقہ میں بھوک پیاس سے بالکل ختم ہو جائی ۔ آج بھی کوئی شخص وہاں جانے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں پندرہ بیس لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک آ ٹھیرے تو اس کے لیے پانی، خوراک اور سائے کا آخر کیا انتظام ہو سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی آبادی ۵۵ ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور  آج اس بیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے مُدَبِّروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں دردِ سر لاحق ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے محققین نے ، جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں ،  یہ ماننے سے انکار  کر دیا ہے کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کےاُس حصہ سے گزرے ہونگے جس کا ذکر بائیبل اور قرآن میں ہوا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ شاید یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے  شمالی حصہ میں پیش آئے ہوں گے۔ جزیرہ نمائے سینا کے طبعی اور معاشی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو بالکل نا قابلِ تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں  برسوں ایک ایک جگہ پڑاؤ کرتی ہوئی گزر سکی تھی، خصوصاً جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق اور شمال میں عَمالِقَہ کے قبیلے اس کی مزاحمت پر آمادہ تھے۔ ان امور کو پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان چند مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے جِن احسانات کا ذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور اس کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل اُن  نا فرمانیوں اور عذاریوں کی مر تکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حواشی نمبر ۷۲ ، ۷۳، ۷۶)