اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۱۳

 اس قصّے سے چند اہم حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے:
(۱) انسان کے اندر شرم و حیا کا نذبہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس کا اوّلین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصّوں کو دسورسں کے سامنے کھو لنے میں آدمی کو فطرةً محسوس ہوتی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقاء سے مصنوعی طور پر پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ  یہ اکتسابی چیز ہے، جیسا کہ شیطان کے بعض شاگردوں نے قیاس کیا ہے، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اوّل روز سے انسان میں موجود تھی۔
(۲) شیطان کی پہلی چال جو اس نے انسان کو فطرتِ انسانی کی سیدھی راہ سے ہٹانے کے لیے چلی، یہ تھی کہ اُس کے اِس جذبہ شرم وحیا پر ضرب لگائے اور برہنگی کے راستے سے اس کےلیے فواحش کا دروازہ کھولے اور اس کو جنسی معاملات میں بدراہ کردے۔ بالفاظِ دیگر اپنے حرف کے محاذ میں ضعیف ترین مقام جو اس نے حملہ کےلیے تلاش کیا وہ اس کی زندگی کا جنسی پہلو تھا،اور پہلی  ضرب جو اس نے لگائی وہ اُس محافظ فصپل پر لگائی جو شرم و حیا کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھی تھی ۔ شیاطین ور ان کے شاگردوں کی یہ روش آج تک جوں کی توں قائم ہے ۔”ترقی“کا کوئی کام ان کے ہاں شروع نہیں ہو سکتا جب تک کہ عورت کو بے پردہ کرکے وہ بازار میں نہ  لاکھڑا کریں اور اُسے کسی نہ کسی طرح عریاں نہ کردیں۔
(۳) یہ بھی انسان کی عین فطرت ہے کہ وہ برائی کی کھلی  دعوت کو کم ہی قبول کرتا ہے۔ عموماً اُسے جال میں پھانسنے کے لیے ہر داعیِ شر کو خیر خواہ کے بھیس ہی میں آنا پڑتا ہے۔
(۴) انسان کے اندر معالیِ امور مثلاً  بشریت سے بالا تر مقام پر پہنچنے یا حیاتِ جاوداں حاصل کرنے کی ایک فطری پیاس موجود ہے اور شیطان کو اُسے فریب دینے میں پہلی کامیابی اِسی ذریعہ سے ہوئیٰ کہ اس نے انسان کی اِس خواہش سے اپیل کیا۔ شیطان کا سب سے زیادہ چلتا ہوا حربہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو بلندی پرلے جانے اور موجودہ حالت سے بہتر حالت پر پہنچا دینے کی امید دلاتا ہے اور پھر اُس کے لیے وہ راستہ پیش کرتا ہے  جو اُسے اُلٹا پستی کی طرف لے جائے۔
(۵) عام طور پر یہ جو مشہور ہو گیا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوّا کو دام فریب میں گرفتار کیا اور پھر انہیں حضرت آدمؑ  کو پھانسنے کے لیے آلئہ کار بنایا ، قرآن اس کی ردید کرتا ہے۔اس کا بیان یہ ہے کہ شیطان نےدونوں کو دھوکا دیا اور دونوں اس  سے دھوکا کھا گئے۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن جن لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت حوّا کے متعلق اِس مشہور روایت نے دنیا میں عورت کے اخلاقی، قانونی اور معاشرتی مرتبے کو گرانے میں کتنا زبردست حصہ لیا ہے وہی قرآن کے اس بیان کی حقیقی قدروقیمت  سمجھ سکتے ہیں۔
(۶)یہ گمان کرنے کےلیے کوئی  معقول وجہ موجود نہیں ہے کہ شجر ممنوعہ کو مزہ چکھتے ہی آدم و حوّا کے ستر کُھل جانا اُس درخت کی کسی خاصیّت کا نتیجہ تھا۔ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کے سِوا کسی اور چیز کا نتیجہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کا ستر اپنے انتظام سے ڈھانکاتھا۔ جب انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی تو خدا کی حفاظت اُن سے ہٹا لی گئی، اُن کا پردہ کھول دیا گیا اور انہیں خود اُن کے اپنے نفس کے حوالے کر دیا گیا کہ اپنی پردہ پوشی کا انتظام خود کریں اگر اس کی ضرورت سمجھتے ہیں، اور اگر ضروت نہ سمجھیں یا اس کے لیے سعی نہ  کریں تو خدا کو اِس کی کچھ پروا نہیں کہ وہ کس حال میں پھرتے ہیں۔ یہ گویا ہمیشہ کے لیے اس حقیقت کا مظاہرہ تھا کہ انسان جب خدا کی نا فرمانی کرے گا تو دیر یا سویر اس کا پردہ کھل کر رہے گا۔ اور یہ کہ انسان کے ساتھ خدا کی تائید و حمایت اسی وقت تک رہے گی جب تک وہ خدا کا مطیع فرمان رہے گا۔ طاعت کے حدود سے قدم باہر  نکالنے کے بعد اسے خدا کی تائید ہرگز حاصل نہ ہو گی بلکہ اسے خود اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ یہ وہی مضمون ہے  جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے اور اسی کے متعلق حضور ؐ  نے دُعا فرمائی ہے کہ  اللھم رحمتک ارجو افلا تکلنی الیٰ تفسی طرفة عین (خدایا !میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں پس مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر)۔
(۷) شیطان یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ انسان اُس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو اُس کے مقابلہ میں انسان کو دی گئی ہے۔ لیکن پہلے ہی معرکے میں اس نے شکست کھائی۔ اس میں شک نہیں کہ اس معر کے میں انسان اپنے رب کے امر کی فرمانبرداری کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا اور اس کی یہ کمزوری ظاہر ہو گئی کہ وہ اپنے حریف کے فریب میں آکر اطاعت کی راہ سے ہٹ سکتا ہے۔ مگر بہر حال اس اولین مقابلہ میں یہ قطعی ثابت ہو گیا کہ انسان اپنے اخلاقی مرتبہ میں ایک افضل مخلوق ہے۔اولاً ، شیطان اپنی بڑائی کاخود مدعی تھا، اور انسان نے اس کا دعویٰ آپ نہیں کیا بلکہ بڑائی اسے دی گئی ۔ ثانیاً ، شیطان نے خلص غرور تکبر کی بنا پر اللہ  کے امر کی نا فرمانی آپ اپنے اختیار سے کی اور انسان نے نافرمانی کو خود اختیار نہیں کیا بلکہ شیطان کے بہکانے سے وہ اس میں مبتلا ہوا۔  ثالثاً،  انسان نے شرکی کھلی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ داعیِ شرکو داعیِ خیر بن کر اس کے سامنے آنا پڑا۔ وہ پستی کی طرف پستی کی طلب میں نہیں گیا بلکہ اس دھوکے میں مبتلا ہو کر گیا کہ یہ راستہ اُسے بلندی کی طرف لے جائے گا۔ رابعاً، شیطان کو تنبیہ کی گئی  تو وہ اپنے قصور کا اعتراف کرنے اور بندگی کی طرف پلٹ آنے کے بجائے نا فرمانی پر اور زیادہ جم گیا، اور جب انسان کو اس کے قصور پر متنبہ کیا گیا تو اس نے شیطان کی طرح سر کشی نہیں کی بلکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ نادم ہوا، اپنے قصور کا اعتراف کر کے بغاوت سے اطاعت کی طرف پلٹ آیا اور معافی مانگ کر اپنے رب کے دامنِ رحمت میں پناہ ڈھونڈنے لگا۔
(۸) اس طرح شیطان  کی راہ اور وہ راہ جو انسان کے لائق ہے ،دونوں ایک دوسرے سے بالکل متمیّر ہو گئیں۔ خالص شیطانی راہ یہ ہے کہ بندگی سے منہ موڑے، خدا کےمقابلہ میں سرکشی اختیار کرے، متنبہ کیے جانے باسجود پورے استکبار کے ساتھ اپنے باغیانہ طرزِ عمل پر اصراف کیے چلا جائے اور جو لوگ طاعت کی راہ چل رہے ہو ں ان کو بھی بہکائے اور معصیّت کی راہ پر لانے کی کوشش کرے۔  بخلاف اس کے جو راہ انسان کےلائق ہے وہ یہ ہے کہ اوّل تو وہ شیطانی اغوا کی مزاحمت کرے اور اپنے اِس دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور اُن سے بچنے کے لیے ہر وقت چوکنّا رہے،لیکن اگر کبھی اس کا قدم بندگی وطاعت کی راہ سے ہٹ بھی جائےتو اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی ندامت و شرمساری کے ساتھ فورًا اپنے رب کی طرف پلٹے اور اُس قصور کی تلافی کر دے جو اس سے سرزد ہوگیا ہے۔ یہی  وہ اصل سبق ہے جو اللہ تعالیٰ اس قصے سے یہاں دینا چاہتا ہے۔ذہن نشین یہ کرنا مقصود ہے کہ جس راہ پر تم لوگ جا رہے ہو  یہ شیطان  کی راہ ہے۔ یہ تمہارا خدائی ہدایت سے بے نیا ز ہو گا شیاطینِ جن و انس کو اپنا ولی و سرپرست بنانا،اور یہ تمہارا پے در پےتنبیہات کے باوجود اپنی غلطی پر اصرار کیے چلے جانا، یہ دراصل خالص شیطانی رویّہ ہے۔ تم اپنے ازلی دشمن کے دام میں گرفتار ہوگئے ہو اور اس سے مکمل شکست کھا رہے ہو۔  اس کا انجام پھر وہی ہے جس سے شیطان خو دوچار ہونے والا ہے۔اگر تم حقیقت میں خود اپنے دشمن نہیں ہوگئے ہو اور کچھ بھی ہوش تم میں باقی ہے تو سنبھلو اور وہ راہ اختیار کرو جو آکر کار تمہارے باپ اور تمہاری ماں آدم وحوّا نے اختیار کی تھی۔