اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۱۴۳

رفیق سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ انہی لوگوں میں پیدا ہوئے، انہی کے درمیان رہے بسے، بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہوئے۔ نوت سے پہلے ساری قوم آپ کو ایک نہایت سلیم الطبع ار صحیح الدماغ آدمی کی حیثیت سے جانتی تھی۔ نبوت کے بعد جب آپ نے خدا کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو یکا یک آپ کو مجنون کہنے لگی۔ ظاہر ہے کہ یہ حکمِ جُنون اُن باتوں پر نہ تھا جو آپ نبی ہونے سے پہلے کرتے تھے بلکہ صرف اُنہی باتوں پر لگایا جارہا تھا جن کی آپ نے نبی ہونے کے بعد تبلیغ شروع کی۔ اسی وجہ سے فرمایا جارہا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی سوچا بھی ہے ، آخر ان باتوں میں کونسی بات جنون کی ہے؟ کونسی بات بے تُکی، بے اصل اور غیر معقول ہے؟ اگر یہ آسمان و زمین کے نظام پر غور کرتے ، یا خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کو بھی بنظرِ تامل دیکھتے تو انہیں خود معلوم ہو جاتا کہ شرک کی تردید، توحید کے اثبات، بندگی رب کی دعوت اور انسان کی زمہ داری و جواب دہی کے بارے میں جو کچھ اُن کا بھائی انہیں سمجھا رہا ہے اس کی صداقت پر یہ پورا نظامِ کائنات اور خلق اللہ کا ذرہ ذرہ شہادت دے رہا ہے۔