اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۳۳

 یہ ایک نہایت لطیف معاملہ ہے جو وہاں پیش آئے گا۔ اہلِ جنت اس بات پر نہ بھولیں گے کہ ہم نے کام ہی ایسے کیے تھے جن پر ہمیں جنت ملنی چاہیے تھی بلکہ وہ خدا کی حمد وثناء اور شکر و احسان مندی میں رطب اللسان ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ سب ہمارے رب کا فضل ہےورنہ ہم کس لائق تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان نہ جتائے گا بلکہ جواب میں ارشاد فرمائے گا کہ تم نے یہ درجہ اپنی خدامات  کہ صلہ میں  پایا ہے، یہ تمہاری اپنی محنت کی کمائی ہے جو تمہیں دی جارہی ہے ، یہ بھیک کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ  تمہاری سعی کا اجر ہے، تمہارے کام کی مزدوری ہے، اور وہ باعزت روزی ہے جس کا استحقاق تم نے اپنی قوت بازو سے  اپنے لیے حاصل کیا ہے۔ پھر یہ مضمون اِس انداز بیان سے اور بھی زیادہ لطیف ہو جاتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ اپنے جواب کا ذکر  اس تصریح کے ساتھ نہیں فرماتا کہ ہم یوں کہیں گے بلکہ انتہائی شان کریمی کے ساتھ فرماتا ہے کہ جواب میں یہ ندا آئے گی۔
 درحقیقت یہی معاملہ دنیامیں بھی  خدا اور اس کے نیک بندوں کے درمیان ہے۔ ظالموں کو جو نعمت دنیامیں ملتی ہے وہ اس پر فخر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ ہماری قابلیت اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے، اور اسی بنا پر وہ نعمت کےحصول پر اور زیادہ متکبر اور مفسد بنتے چلے جاتےہیں۔ اس کے برعکس صالحین کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسے خدا کا فضل سمجھتے ہیں، شکر بجا لاتے ہیں جتنے نوازے جاتے ہیں اتنےہی زیادہ مُتواضع اور رحیم و شفیق اور فیاض ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر آخرت کے بارے میں بھی وہ اپنے حسنِ عمل پر غرور نہیں کرتے کہ ہم تو یقیناً بخشنے  ہی جائیں گے۔بلکہ اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرتےہیں، اپنے عمل کےبجائے خدا کے رحم و فضل سے اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ڈرتے ہی رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے حساب میں لینے کے بجائے کچے دینا ہی نہ نکل آئے۔ بخاری و مسلم دونوںمیں روایت موجود ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا اعلمواان احد کم لن ید خلہ عملہ الجنة۔خوب جان لو کہ تم محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ پہنچ جاؤ گے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی الا ان یتغمد نی اللہ برحمةٍ منہ و فضل ،اِلّا یہ کہ اللہ مجھے اپنء رحمت اور اپنے فضل سے ڈھانک لے۔