اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۳۸

دوسرے الفاظ میں اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ جس شخص کو صحیح اور غلط کا فرق نہایت معقول طریقہ سے صاف صاف بتایا جاتا ہے مگر وہ نہیں مانتا، پھر اس کے سامنے کچھ لوگ صحیح راستہ پر چل کر مشاہدہ بھی کرا دیتے ہیں کہ غلط روی کے زمانے میں وہ جیسے کچھ تھے ا س کی بہ نسبت راست روی اختیار کر کے ان کی زندگی کتنی بہتر ہو گئی ہے ، مگر اس سے بھی وہ کوئی سبق نہیں لیتا، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اب وہ صرف اپنی غلط روی کی سزا پا کر ہی مانے گا کہ ہاں یہ غلط روی تھی۔ جو شخص نہ حکیم کے عاقلانہ مشوروں کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنے جیسے بکثرت بیماروں کو حکیم کی ہدایات پر عمل کرنے کی وجہ سے شفایاب ہوتے دیکھ کر ہی کوئی سبق لیتا ہے، وہ اب بسترِ مرگ پر لیٹ جانے کے بعد ہی تسلیم کرے گا کہ جن طریقوں پر وہ زندگی  بسر کر رہا تھا وہ اس کے لیے واقعی مہلک تھے۔