اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۴۵

 اس فقرے سے واضح ہو گیا کہ اوپر کے فقرے میں جس چیز کو فسادے سے تعبیر کیا  گیا ہے وہ دراصل یہی ہے کہ انسان خدا کے بجائے کسی اور کو اپنا ولی و سرپرست اور کارساز اور کارساز اور کارفرما قرار دے کر مدد کے لیے پکارے۔ اور اصلاح اس کے سوا کسی دوسری چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان کی اِس پکار کا مرجع پھر سے محض اللہ کی ذات ہی ہو جائے۔
خوف اور طمع کے ساتھ پارنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں خوف بھی ہو تو اللہ سے ہو اور تمہاری اُمیدیں بھی اگر کسی سے وابستہ ہوں تو صرف اللہ سے ہوں۔ اللہ کو پکارو تو اس احساس کے ساتھ پکارو کہ تمہاری قسمت بالکلیہ اس کی نظرِ عنایت پر منحصر ہے، فلاح و سعادت کو پہنچ سکتے ہو تو صرف اس کی مدد اور رہنمائی سے، ورنہ جہاں تم اس کی اعانت سے محروم ہوئے پھر تمہارے لیے تباہی و نا مرادی کے سوا کوئی دوسرا انجام نہیں ہے۔