اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۴٦

 یہاں ایک لطیف مضمون ارشاد ہوا ہے جس پر متنبہ ہو جا نا اصل مدعا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ بارش اور اس کی بر کتوں کے ذکر سے اِس مقام پر خدا کی قدرت کا بیا ن اور حیات بعد الممات کا اثبات بھی مقصوع ہے او اس کے ساتھ ساتھ تمثیل کے پیرا یہ میں رسالت اور اس کی بر کتوں کا اور اس کے ذریعہ سے خوب وزشت میں فرق اور خبیث و طیّب میں امتیازنمایا ں ہو جانے کا نقشہ دکھانا بھی پیش نظر ہے۔ رسول کی آمد اور خدا ئی تعلیم و ہدایت کے نزول کو بارانی ہواؤں کے چلنے اور ابرِ رحمت کے چھا جانے اور امرت بھری بوندوں کے برسنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ پھر بارش کے ذریدہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کےیکا یک جی اُٹھنے اور اس کے بطن سے زندگی کے خزانے اُبل  پڑنے کو اُس حالت کے لیے بطور مثال  پیش کیا گیا ہے جو نبی کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی سے مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے یکا یک جاگ اُٹھنے اور اس کے سینے سے بھلائیوں کے خزانے اُبل پڑنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر یہ  بتا یا گیا ہےکہ جس طرح بارش کے نزول سے یہ ساری برکتیں صرف اسی زمین کو حاصل ہوتی ہیں جو حقیقت ذر خیز  ہو تی ہےاور محض پانی نہ ملنے کی وجہ سےجس کی صلاحیتیں دبی رہتی ہیں، اسی طرح رسالت  کی ان برکتوں سے بھی صرف وہی انسان فائدہ اُٹھاتے ہیں جو حقیقت میں صالح ہوتے ہیں اور جن کی صلاحیتوں ک محض رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نمایا ں ہونے اور بر سر کار آنے کا موقع نہیں ملتا۔ رہے شرارت پسند اور خبیث انسان تو جس طرح شوریلی زمین بارانِ رحمت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتی بلکہ پانی پڑتے ہی اپنے پیٹ کے چھپے ہوئے زہر کو کانٹوں اور جھاڑیوں کی صورت میں اُگل دیتی ہے، اسی طرح رسالت کے ظہور سے انہیں بھی کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ اس کے بر عکس ان کے اندر دبی ہوئی تمام خباثتیں اُبھر کر  پوری طرف بر سر کار آجا تی  ہیں۔
اسی تمثیل کو بعد کے کئی رکوعوں میں مسلسل تاریخی شواہدپیش کر کے واضح کیا گیا ہے کہ ہر زمانے میں نبی کی بعثت کے بعد انسانیت دو حِصّوں میں تقسیم ہوتی رہی ہے ۔ ایک طیّب حصہ جو فیضِ رسالت سے پھلا اور پھولا اور بہتر برگ و بار لایا۔ دوسرا خبیث حصہ جس نے کسوٹی کے سامنے آتے ہی اپنی ساری کھوٹ نمایا ں کر کے رکھ دی اور آخر کار اس کو ٹھیک اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا جس طرح سنار چاندی سونے کے کھوٹ کو چھانٹ پھینکتا ہے۔