اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۴۸

یہاں اور دوسرے مقامات پر حضرت نوح ؑ  اور ان کی قوم کا جو حال قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اس  سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ  یہ قوم نہ تو اللہ کے وجود کی منکر تھی ، نہ اس سے نا واقف تھی، نہ اُسے اللہ کی عبادت سے انکار تھا، بلکہ اصل گمراہی جس میں وہ  مبتلا ہو گئی تھی، شرک کی گمراہی تھی۔ یعنی اس نے اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو خدائی میں شریک اور عبادت کے استحقاق میں حصہ دار قرار دے لیا تھا۔  پھر اس بنیادی گمراہی سے بے شمارخرابیاں اس قوم میں  رونما ہو گئیں۔ جو خود ساختہ معبود خدائی میں شریک ٹھیرا لیے گئے تھے ان کی  نمائندگی کرنے کے لیے قوم میں ایک خاص طبقہ پیدا ہو گیا  جو تمام مذہبی سیاسی اور معاشی اقتدار کا مالک بن بیٹھا اور اس نے انسانوں میں اُونچ اور نِیچ کی تقسیم پیدا کر دی، اجتماعی زندگی کو ظلم و فساد سے بھر دیا او اخلاقی فسق و فجور سے انسانیت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ۔ حضرت نوح ؑ  نے اس حالت کو بدلنے کے لیے ایک زنانہ در از تک انتہائی صبر و حکمت کے ساتھ کوشش کی مگر عامتہ الناس کو ان لوگوں نے اپنے مکر کے جال میں ایسا پھانس رکھا تھا کہ اصلاح کی کوئی دتد بیر کار  گر نہ ہوئی ۔ آخر کار حضرت نوح ؑ نے خدا سے دعا کی کہ ان کافروں میں سے ایک کو بھی زمین نہ چھوڑ، کیونکہ اگر تو نے ان میں سے کسی کو بھی چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور ان کی نسل  سے جو بھی پیدا ہو گا بد کار او نمک  حرام ہی پیدا ہو گا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود، رکوع ۳ ۔ سورہ شعراء رکوع ۶ ۔ اور سورہ نوح مکمل