اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۵۰

 جو لوگ قرآن کے اندازِ بیان سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے  وہ بسا اوقات اس شبہہ میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید یہ سارا معاملہ  بس ایک دو صحبتوں میں ختم ہو گیا ہوگا۔ نبی اٹھا اور اس نے اپنا دعوٰی پیش کیا، لوگوں نے اعتراضات کیے اور نبی نے ان کا جواب دیا، لوگوں نے جھٹلایا اور اللہ نے عذاب بھیج دیا۔ حالانکہ فی الحقیقت جن  واقعات کو یہاں سمیٹ کر چند سطروں میں بیان کر دیا گیا ہے وہ ایک نہایت طویل مدّت میں پیش آئے تھے۔ قرآن کا یہ مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ قصہ گوئی محض قصہ گوئی کی خاطر نہیں کر تا بلکہ سبق آموزی کےلیے کرتا ہے۔ اس لیے ہر جگہ تاریخی واقعات کے بیان میں وہ قصّے کے صرف اُن اہم اجزاء کو پیش کرتا ہےجو اس کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق رکھتے ہیں، باقی تمام تفصیلات کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ پھر  اگر کسی قصہ  کو مختلف مواقع پر مختلف اغراض کے لیے بیان کر تا ہے تو  ہر جگہ مقصد کی منا سبت  سے تفصیلات بھی مختلف طور پر پیش کرتا ہے۔ مثلاً اسی قصّہ نوح ؑ  کو لیجیے۔ یہاں اس کے بیان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ پیغمبر کتنی طویل مدّت تک اپنی قوم کو دعوت دیتا رہا۔ لیکن جہاں یہ قصّہ اس غرض کے لیے بیان ہوا ہے کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کی جائے وہاں خاص طور پر دعوتِ نوح ؑ کی طویل مدّت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ آں حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اپنی چند سال کی تبلیغی سعی و محنت کو نتیجہ خیز ہوتے نہ دیکھ کر بددل نہ ہوں اور حضرت نوح ؑ کے صبر کو دیکھیں جنہوں نے مدتہائے دراز تک نہایت دل شکن حالات میں دعوتِ حق کی خدمت انجام دی  اور ذرا  ہمّت نہ ہاری۔ ملاحظہ ہو سورہ عنکبوت، آیت ۱۴
اس موقع پر ایک اور شک بھی لوگوں کے دلوں میں کھٹکتا ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے۔ جب ایک شخص قرآن میں بار بار ایسے واقعات پڑھتا ہے کہ فلاں قوم نے نبی کو جھٹلایا اور نبی  نے اسے عذاب کی خبر دی اور اچانک اس پر عذاب آیا اور قوم تباہ ہوگئی، تو اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کے واقعات اب کیوں نہیں پیش آتے ؟ اگر چہ قومیں گرتی بھی ہیں اور اُبھر تی بھی ہیں، لیکن اس عروج و زوال کی نوعیت دوسری ہوتی ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ ایک نوٹس کے بعد زلزلہ یا طوفان یا صاعقہ آئے اوعر قوم کی قوم کو تباہ کر کے رکھ دے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فی الحقیقت اخلاقی اور قانونی اعتبار سے اس قوم کا معاملہ جو کسی  نبی کی براہ راست مخاطب ہو، دوسری تمام قوموں کے معاملہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ جس قوم میں نبی پیدا ہوا ہو اور وہ بلا واسطہ اس کو خود اسی کی زبان میں خدا کا پیغام پہنچائے اور اپنی شخصیت کے اندر اپنی صداقت کا زندہ نمونہ اس کے سامنے پیش کر دے، اس پر خدا کی حجت پوری ہو جاتی ہے، اس کے لیے معذرت کی کوئی گنجا ئش باقی نہیں رہتی اور خدا کے فرستادہ کو دو بدو جھٹلا دینے کے بعد  وہ اِس کی مستحق ہو جاتی ہے کہ اس کا فیصلہ بر سرِ موقع  چکا دیا جائے۔ یہ نوعیت معاملہ  اُن قوموں کے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے جن کے پاس خدا کا پیغام براہ راست نہ آیا ہو بلکہ مختلف واسطوں سے پہنچاہو۔ پس اگر اب اس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے جیسے انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں پیش آئے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ البتہ تعجب کے قابل کوئی بات ہو سکتی تھی تو یہ کہ اب بھی کسی قوم پر اُسی شان کا عذاب آتا جیسا انبیاء کو دُو بدو جھٹلانے والی قوموں پر آتا تھا۔
مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ اب اُن قوموں  پر عذاب آنے بند ہو گئے ہیں جو خدا سے برگشتہ اور فکری و اخلاقی گمراہیوں میں سر گشتہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ایسی تمام قوموں پر عذاب آتے رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تنبیہی عذاب بھی اور بڑے بڑے فیصلہ کُن عذاب بھی۔ لیکن کوئی نہیں جو انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی کی طرح ان عذابوں کے اخلاقی معنی کی  طرف انسان کو توجہ دلائے۔ بلکہ اس کے بر عکس ظاہر ہیں سائنس دانوں اور حقیقت سے نا واقف مورخین و فلاسفہ کا ایک کثیر گروہ نوعِ انسانی پر مسلط ہے جو اس قسم کے  تمام واقعات کی توجہ طبعیاتی قوانین یا تاریخی اسباب سے کر کے اس کو  بُھلا وے میں ڈالتا رہتا ہے اور اسے کبھی یہ سمجھنے کا موقع نہیں دیتا کہ اوپر کوئی خدا بھی موجود ہے جو غلط کار قوموں کو پہلے مختلف طریقوں سے ان کی غلط کری پر متنبہ کرتا ہے اور جب وہ اس کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے آنکھیں بند کر کے اپنی غلط روی پر اصرار کیے چلی جاتی ہیں تو آکر کار انہیں تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے۔