جو لوگ قرآن کے اندازِ بیان سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے وہ بسا اوقات اس شبہہ میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید یہ سارا معاملہ بس ایک دو صحبتوں میں ختم ہو گیا ہوگا۔ نبی اٹھا اور اس نے اپنا دعوٰی پیش کیا، لوگوں نے اعتراضات کیے اور نبی نے ان کا جواب دیا، لوگوں نے جھٹلایا اور اللہ نے عذاب بھیج دیا۔ حالانکہ فی الحقیقت جن واقعات کو یہاں سمیٹ کر چند سطروں میں بیان کر دیا گیا ہے وہ ایک نہایت طویل مدّت میں پیش آئے تھے۔ قرآن کا یہ مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ قصہ گوئی محض قصہ گوئی کی خاطر نہیں کر تا بلکہ سبق آموزی کےلیے کرتا ہے۔ اس لیے ہر جگہ تاریخی واقعات کے بیان میں وہ قصّے کے صرف اُن اہم اجزاء کو پیش کرتا ہےجو اس کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق رکھتے ہیں، باقی تمام تفصیلات کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ پھر اگر کسی قصہ کو مختلف مواقع پر مختلف اغراض کے لیے بیان کر تا ہے تو ہر جگہ مقصد کی منا سبت سے تفصیلات بھی مختلف طور پر پیش کرتا ہے۔ مثلاً اسی قصّہ نوح ؑ کو لیجیے۔ یہاں اس کے بیان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ پیغمبر کتنی طویل مدّت تک اپنی قوم کو دعوت دیتا رہا۔ لیکن جہاں یہ قصّہ اس غرض کے لیے بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کی جائے وہاں خاص طور پر دعوتِ نوح ؑ کی طویل مدّت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ آں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اپنی چند سال کی تبلیغی سعی و محنت کو نتیجہ خیز ہوتے نہ دیکھ کر بددل نہ ہوں اور حضرت نوح ؑ کے صبر کو دیکھیں جنہوں نے مدتہائے دراز تک نہایت دل شکن حالات میں دعوتِ حق کی خدمت انجام دی اور ذرا ہمّت نہ ہاری۔ ملاحظہ ہو سورہ عنکبوت، آیت ۱۴ |