اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۵٦

 جڑ کاٹ دی، یعنی ان کا استیصال کر دیا اور ان کا نام و نشان تک دنیا میں باقی نہ چھوڑا۔ یہ بات خود اہل عرب کی تاریخی روایات سے بھی ثابت ہے، اور موجود ہ اثری اکتشافات بھی اس پر شہادت دیتے ہیں کہ عاد اولیٰ بالکل تباہ ہو گئے اور ان کی یاد گاریں تک دنیا سے مٹ گئیں۔ چنانچہ مورخین عرب انہیں عرب کی اُممِ بائدہ(معدوم اقوام)میں بے شمار کرتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی عرب کے تاریخی مسلّمات میں سے ہے کہ عاد کا صرف وہ حصہ باقی رہا جو حضرت ہود کا پیرو تھا۔ انہی بقایائے عاد کا نام تاریخ میں  عاد ثانیہ ہے اور حِصنِ غُراب کا وہ کتبہ جس کا ہم ابھی ابھی ذکر  کر چکے ہیں انہی کی یاد گاروں میں سے ہے۔ اس کتبہ میں(جسے تقریباً ١۸ سو برس قبل مسیح کی تحریر سمجھا جاتا ہے)ماہرین آثار نے جو عبارت پڑھی ہے اس کے چند جملے یہ ہیں:۔
          ”ہم نے ایک طویل زمانہ اس قلعہ میں اس شان سے گزارا ہے کہ ہماری زندگی تنگی و بد حالی سے دور تھی، ہماری نہریں دریا کے  پانی سے لبریز رہتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے حکمران ایسے بادشاہ تھے جو بُرے خیالات سے پاک اور اہل شروفساد پر سخت تھے، وہ ہم پر ہود کی شریعت کے مطابق حکومت کرتے تھے اور عمدہ فیصلے ایک کتاب میں درج کر لیے جاتے تھے، اور ہم معجزات اور موت کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے  پر ایمان رکھتے تھے۔“
 یہ عبارت آج بھی قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ عاد کی قدیم عظمت و شوکت اور خوشحالی کے وارث آخر کار وہی لوگ ہوئے  جو حضرت ہود پر ایمان لائے تھے۔