اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۵۷

یہ عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم ہے جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے۔ نزول قرآن سے پہلے اس کے قصّے اہل عرب میں زباں زد ِعام تھے۔ زمانہ جاہلیت  کے اشعار اور خطبوں میں بکثرت اس کا ذکر ملتا ہے۔ اسیریا کے کتبات اور یونان، اسکندریہ اور روم کے قدیم مورخین اور جغرافیہ نویس بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے تک اس قوم کے کچھ بقایا موجود تھے،  چنانچہ رومی مورخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومن افواج میں بھرتی ہوئے اور  نبطیوں کے خلاف لڑے جن سے ان کی دشمنی تھی۔
ا س قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی اَلحَجِر کے نام سے موسوم ہے۔ موجودہ زمانہ میں مدنیہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن پڑتا ہے جسے مدائنِ صالح کہتے ہیں۔ یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم  زمانہ میں حجر کہلاتا تھا۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگین عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنا یا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ نزول  قرآن کے زمانے میں  حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے موقع پر جب ادھر سے گزرے تو آپ نے مسلمانوں کو یہ آثارِ عبرت دکھا ئے اور وہ سبق دیا  جو آثار  قدیمہ سے ہر صاحب ِ بصیرت انسان کو حاصل کر نا چاہیے۔ ایک جگہ آپ نے ایک کنویں کی نشان دہی کر کے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہےجس سے حضرت صالح کی اونٹنی  پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لینا ، باقی کنووں کا پانی نہ پینا۔ ایک پہاڑی در ے کو دکھا کر آپ نے بتایا کہ اسی درے سے وہ اُونٹنی پانی پینے کے لیے آتی تھی۔ چنانچہ وہ مقام آج بھی فَجُّ الناقہ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے کھنڈروں میں جو مسلمان سیر کرتے پھر رہے تھے اُن کو  آپ نے جمع کیا اور ان کے سامنے ایک خطبہ  دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ  اس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا،  لہٰذا یہاں سے جلدی گزر جاؤ، یہ سیر گاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے۔