اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر٦۵

اس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ صرف بے حیاا ور بد کردار اور بد اخلاق ہی نہ تھے بلکہ اخلاقی پستی میں اس حد تک گر گئے تھے کہ انہیں اپنے درمیان  چند نیک انسانوں اورنیکی کی طرف بلانے  والوں  اور بدی پر ٹوکنے والوں  کا وجود تک گوارا نہ تھا۔ وہ بدی میں یہاں تک غرق ہو چکے تھے کہ اصلاح کی آواز کو بھی  برداشت نہ کر سکتے تھے اور پاکی کے اس تھوڑے سے عنصر کو بھی نکال دینا چاہتے تھے جو ان کی گھناؤنی فضا میں باقی رہ گیا تھا۔ اسی حد کوپہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے استیصال کا فیصلہ صادر ہوا۔ کیونکہ جس  قوم کی اجتماعی زندگی میں پاکیزگی کا ذرا سا عنصر بھی باقی نہ رہ سکے پھر اسے زمین پر زندہ رکھنے کی کوئی وجہ  نہیں رہتی۔ سڑے ہوئے پھلوں کے ٹوکرے میں جب تک چند اچھے پھل موجود ہوں اس وقت تک تو ٹوکرے کو رکھا جا سکتا ہے، مگر جب وہ پھل بھی اس میں سے نکل جائیں تو پھر اس ٹوکرے کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں رہتا  کہ اُسے کسی گھوڑے پر اُلٹ دیا جائے۔