اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۷۴

 اس چھو ٹے سے فقرے پر سے سر سری طور پر نہ گزر جائیے۔ یہ ٹھیر کر بہت سوچنے کا مقام ہے۔ مَد یَنَ کے سردار اور لیڈر د راصل یہ کہہ رہے تھے اور اسی بات کا اپنی  قوم کو بھی یقین دلا رہے تھے کہ شعیب جس ایمان داری اور راست بازی کی دعوت دے رہا ہے اور اخلاق ودیا نت کےجن مستقل  اصولوں کی پا بندی کرانا چاہتا ہے، اگر ان کو مان لیا جائے تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ ہماری تجارت کیسے چل سکتی ہے اگر ہم بالکل ہی سچائی کے پابند ہوجائیں اور کھرے کھرے سودے کرنے لگیں۔ اور ہم جو دنیا  کی دو سب سے بڑی تجارتی شاہ راہوں کے چوراہے پر بستے ہیں، اور مصر ودعراق کی عظیم الشان متمدّن  سلطنتوں  کی سرحد پر آباد ہیں، اگر ہم قافلوں کو چھیڑنا بند کر دیں اور بے ضرر اور پُر امن لوگ ہی  بن کر رہ جائین تو جو معاشی اور سیاسی فوائد ہمیں  اپنی موجودہ جغرافی پو زیشن سے حاصل ہو رہے ہیں وہ سب ختم ہو جائیں گے اور آس پاس کی قوموں  پر ہماری  جو دھونس قائم  ہے وہ باقی نہ رہے گی۔۔۔۔ یہ بات صرف قوم شعیب کے سرداروں ہی تک محدود نہیں ہے۔ ہر زمانے میں بگڑے ہوئے لوگوں نے حق اور راستی اور دیانت کی روش میں ایسے ہی خطرات محسوس کیے ہیں۔ ہر دور کے مفسدین کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت اور سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات جُھوٹ اور بے ایمانی اور بد اخلاقی کے بغیر نہیں چل سکتے ۔ ہر جگہ دعوت حق کے مقابلہ میں جو زبر دست عذرات  پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی رہا ہے کہ اگر دنیا کی چلتی ہوئی راہوں سے ہٹ کر اس دعوت کی پیروی کی جائے گی تو قوم تباہ ہو جائے گی۔