ایک ایک نبی اور ایک ایک قوم کا معاملہ الگ الگ بیان کرنے کے بعد اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ابنیاء علیہم السلام کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجاگیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کے لیے نہایت ساز گار بنایا گیا۔ یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا۔ قحط، وبا، تجارتی خسارے ، جنگی شکست اور اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں۔ تا کہ اس کا دل نرم پڑے، اس کی شیخی اور تکبّر سے اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو، اس کا غرورِ طاقت اور نشہ دولت ٹوٹ جائے، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد شکست ہو جائے، اُسے محسوس ہو کہ اُوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں، اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہو جائے۔ پھر جب اس سازگار ماحول میں بھی اس کا دل قبول ِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنہ میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بر بادی کی تمہید شروع ہو جاتی ہے ۔ جب وہ نعمتوں سے مالا مال ہونے لگتی ہے تو اپنے بُرے دن بھول جاتی ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا یہ احمقانہ تصوّر بٹھاتے ہیں کے حالات کا اُتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہو رہا ہے بلکہ ایک اندھی طبیعت بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی بُرے دن لاتی ہی رہتی ہے، لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کر کے خدا کے آگے زاری و تضرُّع کرنے لگنا بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہی وہ احمقانہ ذہنیت ہے جس کا نقشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کھینچا ہے: لا یزال البلا ء بالمؤمن حتٰی یخر جَ نقیاً من ذنوبہٖ، والمنا فقُ مَثَلہُ کمثلِ الحِمار لا یدری فیمَ رَبَطہُ اھلہُ ولاَ فِیمَ ارسلوہ۔ یعنی”مصیبت مومن کی تو اصلاح کر تی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اِس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہو کر نکلتا ہے، لیکن منافق کی حالت با لکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا ۔“پس جب کسی قوم کاحال یہ ہوتا ہے کہ نہ مصائب سے اس کا دل خدا کے آگے جھکتا ہے، نہ نعمتوں پر وہ شکر گزار ہوتی ہے، اور نہ کسی حال میں اصلاح کرتی ہے تو پھر اس کی بر بادی اِس طرح اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہے جیسے پورے دن کی حاملہ عورت کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کب اس کا وضع حمل ہو جائے۔ |