یہ دو نشانیاں حضرت موسیٰ ؑ کو اس امر کے ثبوت میں دی گئی تھیں کہ وہ اُس خدا کے نمائندے ہیں جو کائنات کاخالق اور فرماں روا ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کر چکے ہیں، پیغمبروں نے جب کبھی اپنے آپ کو فرستادہ رب العالمٰین کی حیثیت سے پیش کیا تو لوگوں نے ان سے یہی مطالبہ کیا کہ اگر تم واقعی رب العالمٰین کے نمائندے ہو تو تمہارے ہاتھوں سے کوئی ایسا واقعہ ظہور میں آنا چاہیے جو قوانین فطرت کی عام روش سے ہٹا ہوا ہو اور جس سےصاف ظاہر ہو رہا ہو کہ رب العالمٰین نے تمہاری صداقت ثابت کرنے کے لیے اپنی براہ راست مداخلت سے یہ واقعہ نشانی کے طور پر صادر کیاہے۔ اسی مطالبہ کے جواب میں انبیاء نے وہ نشانیاں دکھائی ہیں جس کو قرآن کی اصطلاح میں ”آیات “اور متکلمین کی اصطلاح میں”معجزات“کہا جاتا ہے۔ ایسے نشانات یا معجزات کو جو لوگ قوانین فطرت کے تحت صادر ہونے والے عام واققعات قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب اللہ کو ماننے اور نہ ماننے کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو کسی طرح معقول نہیں سمجھا جا سکتا ۔ اس لیے کہ قرآن جس جگہ صریح طور پر خارق ِ عادت و اقعہ کا ذکر کر رہا ہو وہاں سیاق و سباق کے بالکل خلاف ایک عادی واقع بنانے کی جدو جہد محض ایک بھونڈی سخن سازی ہے جس کی ضرورت صرف اُن لوگوں کو پیش آتی ہے جو ایک طرف تو کسی ایسی کتاب پر ایمان نہیں لانا چاہتے جو خارقِ عادت واقعات کا ذکر کرتی ہو اور دوسری طرف آبائی مذہب کے پیدائشی معتقد ہونے کی وجہ سے اُس کتاب کا انکار بھی نہیں کرنا چاہتے جو فی الواقع خارقِ عادت واقعات کا ذکر کرتی ہے۔ |