اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۸۸

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک غلام قوم کا  ایک بے سرو سامان آدمی یکایک اُٹھ کر فرعون جیسے بادشاہ کے دربار میں جا کھڑا ہوتا ہے جو شام سے لیبیا تک اور بحرِ روم کے سواحل سے حبش تک کے عظیم الشان ملک کا نہ صرف مطلق العنان بادشاہ بلکہ معبود بنا ہوا تھا، تو محض اُس کے اس فعل سے کہ اس نے ایک لاٹھی کو اژدہا بنا دیا اتنی بڑی سلطنت کو یہ خطرہ کیسے لاحق ہو جاتا ہے کہ یہ اکیلا انسان سلطنت مصر کا تختہ الٹ دے  گا اور شاہی خاندان کو حکمراں طبقے سمیت ملک کے اقتدار سے بے دخل  کر دے گا؟ پھر یہ سیاسی انقلاب کا خطرہ  آخر پیدا بھی کیوں ہوا جبکہ اس شخص نےصرف کا دعویٰ اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ ہی پیش کیا تھا  اور کسی قسم کی سیاسی گفتگو سرے سے چھیڑی ہی نہ تھی؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا دعو ائے نبوت اپنے اندر خود ہی یہ معنی رکھتا تھا کہ وہ دراصل پورے نظام ِ زندگی کو بحیثیتِ مجموعی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں لا محالہ ملک کا سیاسی نظام بھی شامل ہے۔ کسی شخص کا اپنے  کو رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرنا لازمی طور پر اس بات کو متضمن ہے کہ وہ انسانوں سے اپنی کلی اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے، کیونکہ ربّ العالمین کا نمائندہ کبھی مطیع اور رعیت بن کر رہنے کے لیے نہیں آتا بلکہ مطاع اور راعی بننے ہی کے لیے آیا کرتا ہے اور کسی کافر کے حق حکمرانی کو تسلیم کر لینا اس کی حیثیت رسالت کے قطعاً منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ  کی زبان سے رسالت کا دعویٰ سنتے ہی فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کے سامنے سیاسی و معاشی اور تمدنی انقلاب کا خطرہ نمودار ہوگیا۔ رہی یہ بات کہ حضرت موسیٰ کے اس دعوے کو مصر کے دربار شاہی میں اتنی ہمت ہی کیوں دی گئی جبکہ ان کے ساتھ ایک بھائی کے سوا کوئی معاون و مدد گار اور صرف ایک سانپ بن جانے والی لاٹھی اور ایک چمک والے ہاتھ کے سوا کوئی نشان ماموریت نہ تھا؟ تو میرے نزدیک اس کے دو بڑے سبب ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت موسیٰ ؑ کی شخصیت سے فرعون اوراس کے درباری خوب واقف تھے۔ ان کی پاکیزہ اور مضبوط سیرت ، ان کی غیر معمولی قابلیت ، ور قیادت و فرماں روائی کی پیدائشی صلاحیت کا سب کو علم تھا۔ تلمود  اور یوسیفوس کی روایات اگر صحیح ہیں تو حضرت موسیٰ ؑ نے اِن پیدائشی قابلیتوں کے علاوہ فرعون کے ہاں علوم وفنون  اور حکمرانی و سپہ سالاری  کی وہ پوری تعلیم و تربیت  بھی حاصل کی تھی جو شاہی خاندان کے افراد کو دی جاتی تھیں۔ اور زمانہ  شاہزادگی میں حبش کی مہم پر جا کر وہ اپنے آپ کو ایک بہترین جنرل بھی ثابت کر چکے تھے۔ پھر جو تھوڑی بہت کمزوریاں شاہی محلوں میں  پرورش پانے اور فروعونی نظام  کے اندر امارت کے مناصب پر سرفراز رہنے کی وجہ سے  ان میں پائی جاتی تھیں، وہ بھی آٹھ دس سال مدین کے علاقہ میں صحرائی زندگی گزارنے اور بکریاں  چرانے کی بدولت دور ہو چکی تھیں اور اب فرعونی دربار کے سامنے ایک ایسا سن رسیدہ و سنجیدہ فقیر کشور گیر نبوت کا دعویٰ لیے ہوئے کھڑا تھا جس کی بات کو بہر حال بادِ ہوائی سمجھ کر اڑایا نہ جا سکتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ عصا اور یدبیضاء کی نشانیاں دیکھ کر فرعون اور اس کے درباری سخت مرعوب ہو چکے تھے اور ان کو تقریباً یہ یقین ہو گیا تھا کہ یہ شخص فی الواقع کوئی فوق الفطری طاقت اپنی پشت پر رکھتا ہے۔ ان کا حضرت موسیٰ کو ایک طرف جادوگر بھی کہنا اور پھر دوسری طرف یہ اندیشہ بھی ظاہر کرنا کہ یہ ہم کو اس سر زمین کی فرماں روائی سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، ایک صریح تضادِ بیان تھا اور  اُس بو کھلاہٹ کا  ثبوت تھا جو ان پر نبوت کے اس اوّلین مظاہرے سے طاری ہو گئی تھی۔ اگر حقیقت میں وہ حضرت موسیٰ ؑ  کو جا دوگر سمجھتے تو ہر گز ان سے کسی سیاسی انقلاب کا اندیشہ نہ کرتے ۔ کیونکہ جادو کے بل بوتے پر کبھی دنیا میں کوئی سیاسی انقلاب نہیں ہوا ہے۔