اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۹۸

 بنی اسرائیل  نے جس مقام سے بحرِ احمر  کو عبور کیا وہ غالباً موجودہ سویز اور اسماعیلیہ کے درمیان کوئی مقام تھا۔ یہاں سے گزر کر  یہ لوگ جزیرہ نما ئے سینا کے جنوبی علاقے کی طرف ساحل کے کنارے کنارے روانہ ہوئے۔ اُس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا کا مغربی اور شمالی حصّہ مصر کی سلطنت میں شامل تھا۔ جنوب کے علاقے میں موجودہ شہر طور اور ابو زَنِیمہ کے درمیان تانبے اور فیرزے کی کانیں تھیں، جن سے اہل مصر بہت فائدہ اُٹھاتے تھے اور ان کانوں کی حفاظت کے لیے مصریوں نے چند مقامات پرچھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں۔ انہی چھاؤنیوں میں سے ایک چھاؤنی مفقَہ کے مقام پر تھی جہاں مصریوں کا یک بہت بڑا بُت خانہ تھا جس کے  آثار اب بھی جزیرہ نما کے جنوبی مغربی علاقہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے قریب ایک اور مقام بھی تھاجہاں قدیم زمانے سے سامی قوموں کی چاند دیوی کا بُت خانہ تھا۔ غالباً انہی مقامات میں سے کسی کے پاس سے گزرتے ہوئے بنی اسرائیل کو،جن پر مصریوں کی غلامی نے مصر یت زدگی کا اچھا خاصا گہرا ٹھپّا لگا رکھا تھا، ایک مصنوعی خدا کی ضرورت محسوس ہوئی ہو گی۔
بنی اسرائیل کی ذہنیّت کو اہل مصر کی غلامی نے جیسا کچھ بگاڑ دیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ مصر سے نکل آنے کے ۷۰ برس بعد حضرت موسیٰ کے خلیفہ اوّل حضرت یُوشع بن نُون اپنی آخری تقریر میں بنی اسرائیل کے مجمعِ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”تم خدا کا خوف رکھو  اور نیک نیتی اور صداقت کے ساتھ اس کی پرستش کرو اور ان دیوتاؤں کو دور کر دو جن کی پرستش تمہارے باپ دادا بڑے دریا کے پار اور مصر میں کرتے تھے اور خدا وند کی پرستش کرو ۔ اور اگر خداوند کی پرستش تم کو بُری معلوم ہوتی  ہو تو آج ہی تم اُسے جس کی پرستش کرو گے چن لو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو خدا وند ہی کی پرستش کریں گے“   (یشوع ۲۴:١۴۔١۵)
اس سے انداز ہوتا ہے کہ ۴۰ سال تک حضرت موسیٰ ؑ کی اور ۲۸ سال حضرت یُوشع کی تربیت و رہنمائی میں زندگی بسر کر لینے کے بعد بھی یہ قوم اپنے اندر سے اُن اثرات کو نہ نکال سکی جو فراغنہ مصر کی بندگی کے دور میں اُس کی رگ رگ کے اندر اتر گئے تھے۔ پھر بھلا کیونکر ممکن تھا کہ مصر سے نکلنے کے بعد فورًا ہی جو بُت کدہ سامنے  آگیا تھا اس کو دیکھ کر ان بگڑے ہوئے  مسلمانوں میں سے بہتوں کی پیشانیاں اُس آستانے پر سجدہ کرنے کے لیے بیتاب نہ ہو جائیں  جس پر وہ اپنے سابق آقاؤں کو ماتھا رگڑتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔