اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانفال حاشیہ نمبر١

یہ اس  تبصرہ جنگ کی عجیب تمہید ہے۔ بدر میں جو  مال غنیمت لشکر قریش سے لوٹا گیا تھا اس کی تقسیم پر مسلمانوں کے درمیان نزاغ برپا پو گئی۔ چونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان لوگوں کی پہلی مرتبہ پرچم اسلام کے نیچے لڑنے کا اتفاق ہوا تھا اس لیے ان کو معلوم نہ تھا کہ اس مسلک میں جنگ اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق کیا ضابطہ ہے۔ کچھ ابتدائی ہدایات سورہ بقرہ اور سورہ محمد میں دی جا چکی  تھیں۔ لیکن”تہذیب جنگ“ کی بنیاد ابھی رکھنی باقی تھی۔ بہت سے تمدنی معاملات کی طرح مسلمان ابھی تک جنگ کے معاملہ میں بھی اکثر پرانی جاہلیت ہی کے تصورات لیے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے بدر کی لڑائی میں کفار کی شکست کےبعد جن لوگوں نے جو جو کچھ مال غنیمت لوٹا تھا وہ عرب کے پرانے طریقہ کے مطابق اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھ بیٹھے تھے۔ لیکن ایک دوسرا فریق جس نے غنیمت کی طرف رُخ کرنے کے بجائے کفار کا تعاقب کیا تھا، اس بات کا مدعی ہوا کہ اس مال  میں ہمارا برابر کا حصہ ہے کیونکہ اگر ہم دشمن کا پیچھا کرکے اسے دور تک بھگا نہ دیتے اور تمہاری طرح غنیمت پر ٹوٹ پڑتے تو ممکن تھا کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ کر دیتا اور فتح شکست سے بدل جاتی ۔ ایک تیسرے فریق نے بھی ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کر رہا تھا، اپنے دعاوی پیش کیے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ سب سے بڑھ کر قیمتی خدمت  تو اس جنگ میں ہم نے انجام دی ہے۔ اگر ہم رسول اللہ کے گرد اپنی جانوں کا حصار بنائے ہوئے  نہ رہتے اور آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح ہی کب نصیب ہو سکتی تھی کہ کوئی مال غنیمت ہاتھ آتا اور اس کی تقسیم کا سوال اٹھتا۔ مگر مال عملاً جس فریق کے قبضہ میں  تھا اس کی ملکیت گویا کسی ثبوت کی محتاج نہ تھی اور  وہ دلیل کا یہ حق ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ ایک امرِ واقعی کے اس زور سے بدل جائے۔ آخر کار اس نزاع نے تلخی کی صورت اختیار کرنی شروع کردی اور زبانوں سے دلوں تک بد مزگی پھیلنے لگی۔
یہ تھا وہ نفسیاتی  موقع جسے اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال  نازل کرنے کے لیے منتخب فرمایا  اور جنگ پر اپنے تبصے کی ابتدا اسی مسئلے سے کی۔ پھر پہلا ہی فقرہ جو ارشاد ہوا اُسی میں سوال کا جواب موجود تھا فرمایا”تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں“؟ یہ ان اموال کو ”غنائم“  کے بجائے” انفال “ کے لفظ سے تعبیر کرنا بجائے خود مسئلے کا فیصلہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ انفال جمع ہے نفل کی۔ عربی زبام میں نفل اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب سے یا حق سے زائد ہو۔ جب یہ تابع کی طرف سے ہو تو اس سے مراد و ہ رضا کارانہ خدمت ہوتی ہے جو ایک بندہ اپنے آقا کے لیے فرض سے بڑھ کر تَطُوَّعًا بجا لاتا ہے۔ اور جب یہ متبوع کی طرف سے ہو تو اس سے مرادہ وہ عطیہ و انعام ہوتا ہے جو آقا  اپنے بندے کو اس کے حق سے زائد دیتا ہے۔ پس ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ساری ردّوکد، یہ نزاع ، یہ پوچھ گچھ کیا خدا کے بخشے ہوئے ، انعامات کے بارے میں  ہو رہی ہے؟ اگر یہ بات ہے تو تم لوگ ان کے مالک و مختار کہان بنے جا رہے ہو کہ خواد ان کی تقسیم کا فیصلہ کرو۔ مال جس کا بخشا ہوا ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کیسے دیا جائے اور کسے نہیں، اور جس کو بھی دیا جائے اسے کتنا دیا جائے۔
یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی اخلاقی اصلاح تھی ۔ مسلمان کی جنگ دنیا کے مادی فائدے بٹورنے کیلے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اخلاقی وتمدنی بگاڑ کو اس اصول حق کے مطابق درست کرنے کے لیے ہے ، جسے مجبوراً  اُس وقت اختیار کیا جاتا ہےجبکہ مزاحم قوتیں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اصلاح کو ناممکن بنا دیں۔ پس مصلحین کی نظر اپنے  مقصد پر ہونی چاہیے نہ کہ اُن فوائد پر جو مقصد کے لیے سعی کرتے ہوئے بطور انعام خدا کی عنایت سے حاصل ہوں۔ ان فوائد سے اگر ابتدا ہی میں ان کی نظر نہ ہٹا دی جائے تو بہت جلدی، اخلاقی انحطاط رونما ہو کر یہی فوائد مقصود قرار پا جائیں۔
پھر یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی  انتظامی اصلاح بھی تھی۔ قدیم زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا۔ یا پھر بادشاہ یا سپہ سالار تمام غنائم پر قابض ہو جاتا ۔ پہلی صورت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ فتح یاب فوجوں کے درمیان اموال غنیمت پر سخت تنافُس برپا ہو جاتا اور بسا اوقات ان کی خانہ جنگی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتی۔ دوسری صورت میں سپاہیوں کو چوری کا عارضہ لگ جاتا تھا اور وہ غنائم کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن مجید نے انفال کو اللہ اور رسول کا مال قرار دے کر پہلے تو یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ تمام مال غنیمت لا کر بے کم و کاست امام کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایک سوئی تک چھپا کر نہ رکھی جائے۔ پھر آگے چل کر اس مال کی تقسیم کا قانون بنا دیا کہ پانچواں حصہ خدا کے کام اور اس کے غریب بندوں  کی مدد کے لیے بیت المال میں رکھ لیا جائے اور باقی چار حصے اُس پوری فوج میں تقسیم کر دیے جائیں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ اس طرح وہ دونوں خرابیاں دور ہوگئیں جو جاہلیت کے طریقہ میں تھیں۔
                اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ذہن میں رہنا چاہیے، یہاں انفال کے قصے کو صرف اتنی بات کہہ کر ختم کر دیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ تقسیم کے مسئلے کو یہاں نہیں چھیڑا گیا  تا کہ پہلےتسلیم و اطاعت مکمل ہو جائے۔ پھر چند رکوع کے بعد بتایا گیا کہ ان اموال کو تقسیم کس طرح کیا جائے۔ اسی لیے یہاں انہیں”انفال “کہاگیا ہے اور رکوع ۵ میں جب تقسیم کا حکم بیان کرنے کی نوبت آئی تو انہی اموال کو”غنائم“کے لفظ سے تعبیر کیا گیا۔