اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانفال حاشیہ نمبر۴١

یہاں خاص طور پر اشارہ ہے یہود کی طرف، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے انہی کے ساتھ حسن جوار اور باہمی تعاون و مددگاری کا معاہدہ کیا تھا اور اپنی حد تک پوری کوشش کی تھی کہ ان سے خوشگوار تعلقات قائم رہیں۔ نیز دینی حیثیت سے بھی آپ یہود کو مشرکین کی بہ نسبت اپنے قریب تر سمجھتے تھے اور ہر معاملہ میں مشرکین کے بالمقابل اہل کتاب ہی کے طریقہ کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن اُن کے علماء اور مشائخ کو توحیدِ خالص اور اخلاق صالحہ کہ وہ تبلیغ اور اعتقادی و عملی گمراہیوں پر  وہ تنقید اور اقامت دین حق کی وہ سعی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے تھے، ایک آن نہ بھاتی تھی اور ان کی پیہم  کوشش یہ تھی کہ یہ نئی تحریک کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے۔ اسی مقصد کے لیے وہ مدینہ کے منافق مسلمانوں سے ساز باز کرتے تھے۔اسی کے لیے وہ اَوس اور خَزرَج کے لوگوں میں ان پرانی عدادتوں کو بھڑکاتے تھے جوا سلام سے پہلے ان کے درمیان کشت و خون کی موجب ہوا کرتی تھیں۔اسی کے لیے قریش اور دوسرے مخالف ِ اسلام قبیلوں سے ان کی خفیہ سازشیں چل رہی تھیں اور یہ حرکات اُس معاہد ہ دوستی کے باوجود ہو رہی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے درمیان لکھا جا چکا تھا ۔ جب جنگ بدر واقع ہوئی تو ابتدا میں ان کو توقع تھی کہ قریش کی پہلی ہی چوٹ اس تحریک کا خاتمہ کر دے گی۔ لیکن جب نتیجہ ان کی توقعات کے خلاف نکلا تو اُن کے سینوں کی  آتشِ حسد اور زیادہ بھڑک اُٹھی ۔ انہوں نے اس اندیشہ سے کہ بدر کی فتح کہیں اسلام کی چاقت کو ایک مستقل خطرہ نہ بنا دےاپنی مخالفانہ  کوششوں کو تیز تر کر دیا ۔ حتٰی کہ اُن کا ایک لیڈر کعب بن اشرف(جو قریش کی شکست سنتے ہی  چیخ اُٹھا تھا کہ آج زمین کا پیٹ ہمارے  لیے اُس کی پیٹھ سے بہتر ہے) خود مکہ گیا اور وہاں سے  اس نے ہیجان انگیز مرثیے کہہ کہہ کر  قریش کو انتقام کا جوش دلا یا۔ اس پر بھی ان لوگوں نے بس نہ کی۔ یہودیوں کے قبیلہ بنی تَینُقاع نے معاہدہ حسنِ جوار کے خلاف ان مسلمان عورتوں کو چھیڑنا شروع کیا جو ان کی بستی میں کسی کام سے جاتی تھیں۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس حرکت پر ملامت کی تو انہوں نے جواب میں دھمکی دی کہ یہ قریش نبا شد، ہم لڑنے مرنے والے لوگ ہیں اور لڑنا جانتے ہیں۔ ہمارے مقابلہ میں آؤ گے تب تمہیں پتہ چلے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔