اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر ۱۰۷

اس امر پر بہت اعتراضات کیے گئے ہیں کہ جس وعدے کا یہاں ذکر ہے وہ توراۃ اور انجیل میں موجود نہیں ہے ۔ مگر جہاں تک انجیل کا تعلق ہے یہ اعتراضات بے بنیا د ہیں ۔ جو اناجیل اس وقت دنیا میں موجود ہیں ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعدد اقوال ہم کو ایسے ملتے ہیں جو اس آیت کے ہم معنی ہیں ، مثلاً:
”مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب ستائے گئے ہیں ، کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہی کی ہے“ (متی ۱۰:۵)
”جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا“(متی ۳۹:۱۰)
”جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا“(متی ۲۹:۱۹)
البتہ توراۃ جس صورت میں اس وقت موجود ہے اس میں بلاشبہہ یہ مضمون نہیں پایا جاتا، اور یہی مضمون کیا، وہ تو حیات بعد الموت اور یوم الحساب اور اخروی جزا و سزا کے تصور ہی سے خالی ہے۔ حالانکہ یہ عقیدہ ہمیشہ سے دین حق کا جز و لاینفک رہا ہے۔ لیکن موجودہ توراۃ میں اس مضمون کے نہ پائے جانے سے یہ نتیجہ نکا لنا درست نہیں کہ واقعی توراۃ اس سے خالی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اپنے زمانۂ تنزل میں کچھ ایسے مادّہ پرست اور دنیا کی خوشحالی کے بھوکے ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک نعمت اور انعام کے کوئی معنی اس کے سوا نہ رہے تھے کہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو۔ اسی لیے کتاب الہٰی میں بندگی و اطاعت کے بدلے جن جن انعامات کے وعدے ان سے کیے گئے تھے ان سب کو وہ دنیا ہی میں اتار لائے اور جنت کی ہر تعریف کو انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر چسپاں کر دیا جس کے وہ امیدوار تھے۔ مثال کے طور پر توراۃ میں متعدد مقامات پر ہم کو یہ مضمون ملتا ہے :
” سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت کر“ (استثناء  ۶ : ۴ : ۵ )
اور یہ کہ:
”کیا وہ تمہارا باپ نہیں جس نے تم کوخریدا ہے؟ اسی نے تم کو بنایا اور قیام بخشا“ (استثنا ء ۳۲ : ۶)
لیکن اس تعلق باللہ کی جو  جزا بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تم اُس ملک کے مالک ہو جاؤ گے جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ، یعنی فلسطین۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ توراۃ جس صورت میں اس وقت پائی جاتی ہے اول تو وہ پوری نہیں ہے ، اور پھر وہ خالص کلامِ الہٰی پر بھی مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سا تفسیری کلام خدا کے کلام کے ساتھ ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ اس  کے اندر یہودیوں کی قومی روایات، اُن کے نسلی تعصبات ، ان کے اوہام، ان کی آرزووں اور تمناؤں ، ان کی غلط فہمیوں ، اور ان کے فقہی اجتہادات کا ایک معتدبہ حصہ ایک ہی سلسلہ عبارت میں کلامِ الہٰی کے ساتھ کچھ اس طرح رَل مِل گیا ہے کہ اکثر مقامات پر اصل کلام کو اِن زوائد سے ممیز کرنا قطعًا غیر ممکن ہو جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ آلِ عمران ، حاشیہ نمبر۲