اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر١۰۸

متن میں لفظ  التّآ ئِبُون استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ”توبہ کرنے والے“ ہے۔ لیکن جس اندازِ کلام میں یہ لفظ استعمال  کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ  توبہ کرنا اہلِ ایمان کی مستقل صفا ت میں سے ہے ، اس لیے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ توبہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہین۔ اور توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے یا پلٹنے کے ہیں، لہٰذا اس لفظ کی حقیقی روح ظاہر کرنے کے  لیے ہم نے اس کا تشریحی ترجمہ  یوں کیا ہے کہ ” وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹتے ہیں“۔ مومن اگر چہ اپنے پورے شعور و ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے نفس و مال کی بیع کا معاملہ طے  کرتا ہے، لیکن چونکہ ظاہر حال کے لحاظ سے محسوس یہی ہوتا ہےکہ نفس اس کا اپنا ہے اور مال اُس کا اپنا ہے، اور یہ بات کہ اِس نفس و مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے ایک امر محسوس نہیں بلکہ محض ایک امر معقول ہے ، اس لیے مومن کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں جبکہ وہ عارضی طور پر خدا کے ساتح اپنے معاملۂ بیع کو بھول جاتا ہے اور اس سے غافل ہو کر کوئی خودمختارانہ طرزِ عمل اختیار کربیٹھتا ہے۔ مگر ایک حقیقی مومن کی صفت یہ ہے کہ جب بھی اس کی یہ عارضی بھول دور ہوتی ہے اور وہ اپنی غفلت  سے چونکتا ہے اور اس کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ غیر شعوری طور پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کر گزرا ہے تو اسے ندامت لاحق ہوتی ہے ، شرمندگی کے ساتھ وہ اپنے خدا کی طرف پلٹتا ہے، معافی مانگتا ہے اور اپنے عہد کو پھر سے تازہ کر لیتا ہے۔ یہی بار بار کی توبہ اور یہی رہ رہ کر خدا کی طرف پلٹنا اور ہر لغزش کے بعد وفاداری کی راہ پر واپس آنا ہی ایمان کے دوام و ثبات کا ضامن ہے ۔ ورنہ انسان جن بشری کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ان کی موجودگی میں تو یہ بات اس کے بس میں نہیں ہے کہ خدا کے ہاتھ ایک دفعہ نفس و مال بیچ دینے کے بعد ہمیشہ کامل شعورت حالت میں وہ اس بیع کے تقاضوں کو پورا کرتا  رہے اور کسی وقت بھی غفلت و نسیان اس پر طاری نہ ہونے پائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ مومن  کی تعریف میں یہ نہیں فرماتا کہ وہ بندگی کی راہ پر آکر کبھی اس سے پھسلتا ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی قابلِ تعریف صفت یہ قرار دیتا ہے کہ وہ پھسل پھسل کر بار ابر اُسی راہ کی طرف آتا ہے ، اور یہی وہ بڑی سے بڑی خوبی ہے جس پر انسان قادر ہے۔
پھر اس موقع پر مومنین کی صفات میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر کرنے کی ایک اور مصلحت بھی ہے ۔ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آرہا ہے اس میں روئے سخن اُن لوگوں کی طرف ہے جن سے ایمان کے منافی افعال کا ظہور ہوا تھا۔ لہٰذا ان کو ایمان کی حقیقت اور اس کا بنیادی مقتضٰی بتانے کے بعد اب  یہ تلقین کی جارہی ہے کہ  ایمان لانے والوں میں لازمی طور پر جو صفات ہونی چاہییں ان میں سے اوّلین صفت یہ ہے کہ جب بھی ان کا قدم راہِ بندگی سے پھسل جائے وہ فورًا اس کی طرف پلٹ آئیں ، نہ یہ کہ اپنے انحراف پر جمے رہیں اور زیادہ دُور نکلتے چلے جائیں۔