اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر١۰۹

متن میں لفظ السَّا ئِحُونَ استعمال ہوا ہے جس کی تفسیر بعض مفسرین نے الصَّآ ئِمُونَ (روزہ رکھنے والے) سے کی ہے۔ لیکن سیاحت کے معنی روزہ، مجازی معنی ہیں۔ اصل لغت میں اس کے یہ معنی نہیں ہیں۔ اور جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس لفظ کیے یہ معنی ارشاد فرمائے ہیں ، اس کی نسبت حضورؐ کی طرف درست نہیں ہے۔ اس لیے ہم  اس کو اصل لغوی معنی ہی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔ پھر جس طرح قرآن میں بکثرت مواقع پر مطلقًا انفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے  جس کےمعنی خرچ کرنے کے ہیں اور مراد اُس  سے راہ ِ خدا میں خرچ کرنا ہے ، اُسی طرح یہاں بھی سیاحت سے مراد محض گھومنا پھرنا نہیں ہے بلکہ ایسے مقاصد کے لیے زمین میں نقل و حرکت کرنا ہے جو پاک اور بلند ہو ں اور جن میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ مثلًا اقامت دین کے لیے جہاد، کفر زدہ علاقوں سے ہجرت، دعوتِ دین، اصلاحِ خلق، طلبِ علمِ صالح، مشاہدۂ آثارِ الہٰی اور تلاشِ رزق ِ حلال۔ اس صفت کو یہاں مومنین کی صفات میں خاص طور پر اس  لیے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعوٰی کرنے کے باوجود جہاد کی پکار پر گھروں نے نہیں نکلتے تھےان کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی مومن ایمان کا دعویٰ کر کے اپنی جگہ چین سے بیٹھا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ خدا کے دین کو قبول کر نے کے بعد اس کا بول بالا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دنیا میں دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کرتا پھرتا ہے۔