اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر١١۴

یعنی اللہ پہلے یہ بتادیتا ہے کہ لوگوں کو کن خیالات ، کِن اعمال اور کن طریقوں سے بچنا چاہیے، پھر جب وہ باز نہیں آتے اور غلط فکری و غلط کاری ہی پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی ہدایت و رہنمائی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اُسی غلط راہ پر انہیں دھکیل دیتا ہے جس پر وہ خود جانا چاہتے ہیں۔
یہ ارشاد ایک قاعدۂ کلیہ بیان کرتا ہے جس سے قرآن مجید کے وہ تمام مقامات اچھی طرح سمجھے جا سکتے ہیں جہاں ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فعل بتایا ہے ۔ خدا کا ہدایت دینا یہ ہے کہ وہ صحیح طریق فکر و عمل اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے سامنے واضح طور پر پیش کر دیتا ہے، پھر جولوگ اس طریقے پر کود چلنے کے لیے آمادہ نہ ہوں انہیں اس کی توفیق بخشتا ہے ۔ اور خدا کا گمراہی میں ڈالنا یہ  ہے کہ جو صحیح طریقِ فکر و عمل اس نے بتا دیا ہے  اگراس کے خلاف چلنے ہی پر کوئی اصرار کرے اور سیدھا نہ چلنا چاہے تو خدا اس کو زبردستی راست بیں اور راست رو نہیں بنایتا بلکہ جدھر وہ خود جانا چاہتا ہے اسی طرف اس کو جانے کی توفیق دے دیتا ہے۔
اس خاص سلسلہ ٔ کلام میں یہ بات جس مناسبت سے بیان ہوئی ہے وہ پچھلی تقریر اور بعد کی تقریر پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ یہ ایک طرح کی تنبیہ ہے جو نہایت موزوں طریقہ سے پچھلے بیان کا خاتمہ بھی قرار پا سکتی ہے اور آگے جو بیان آرہا ہے اس کی تمہید بھی۔