یہ تینوں صاحب کَعب بن مالک، ہِلال بن اُمیّہ اور مُرارہ بن رُبَیع تھے ۔ جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہین ، تینوں سچے مومن تھے۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے۔ قربانیاں کر چکے تھے۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوۂ بدر کے شرکاء میں سےتھے جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی۔ اور اول الذکر بزرگ اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ ان خدمات کے باوجود جو سُستی اِس نازک موقع پر جبکہ تمام قابل جنگ اہلِ ایمان کو جنگ کے لیے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا، اِن حضرات نے دکھائی اُس پر سخت گرفت کی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے۔ ۴۰ دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کی تاکید کر دی گئی۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہو گیا تھا کہ جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے۔ آخر کار جب ان کے مقاطعہ کو ۵۰ دن ہو گئے تب معافی کا یہ حکم نازل ہوا۔ |