اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر١١۹

یہ تینوں صاحب کَعب بن مالک، ہِلال بن اُمیّہ اور مُرارہ بن  رُبَیع تھے ۔ جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہین ، تینوں سچے مومن تھے۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے۔ قربانیاں کر چکے تھے۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوۂ بدر کے شرکاء میں سےتھے جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی۔ اور اول الذکر بزرگ اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ ان خدمات کے باوجود جو سُستی اِس نازک موقع پر جبکہ تمام قابل جنگ اہلِ ایمان کو جنگ کے لیے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا، اِن حضرات نے دکھائی اُس پر سخت گرفت کی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے۔ ۴۰ دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کی تاکید کر دی گئی۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہو گیا تھا کہ جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے۔ آخر کار جب ان کے مقاطعہ کو ۵۰ دن  ہو گئے تب معافی کا یہ حکم نازل ہوا۔
ان تینوں صاحبوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے اپنا قصہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو غایت درجہ سبق آموز ہے ۔ اپنے بڑھاپے کے زمانہ میں جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے، انہوں نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے ، جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلا یا کرتے تھے، یہ قصہ خود بیا ن کیا:
غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی مسلمانوں سے شرکتِ جنگ کی اپیل کرتے تھے ، میں اپنے دل میں ارادہ  کر لیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا مگر پھر واپس آکر سُستی کر جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ابھی کیا ہے ، جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیا ہو تے کیا دیر لگتی ہے۔ اسی طرح بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو، میں ایک دو روز بعد راستہ ہی میں اس سے جا ملوں گا۔ مگر پھر وہی سُستی مانع ہوئی حتٰی کہ وقت نکل گیا۔
اس زمانہ میں جبکہ میں مدینے میں رہا میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بے حد کُڑھتا تھا کہ میں  پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ہیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے معذور رکھا ہے۔
جب نبی صلی  اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسبِ معمول آپؐ نے پہلے مسجد آکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے۔ اس مجلس میں منافقین نے آآ کر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کیے ۔ یہ ۸۰ سے زیادہ آدمی تھے ۔ حضورؐ نے اُن  میں سے  ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں۔ ان کے ظاہری عذرات کو قبول کر لیا، اور ان کے باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا خدا تمہیں معاف کرے۔ پھر میری باری آئی۔ میں نےآگے بڑھ کر سلام عرض کیا۔”خدا کی قسم اگر میں اہلِ دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بات بنا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا، باتیں بنانی تو مجھے بھی آتی ہیں، مگر آپ کے متعلق میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اِس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کر کے میں نے آپ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپ کو مجھ سے پھر ناراض کر دے گا۔ البتہ اگر سچ کہون تو چاہے آپ ناراض ہی کیوں نہ ہوں، مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے پیش کر سکوں، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا“۔ اس پر حضور نے فرمایا”یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی۔ اچھا،  اُٹھ جاؤ   اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں کوئی فیصلہ کرے“۔ میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑگئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تُو نے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگا کہ پھر حاضر ہو کر کوئی بات بنا دوں۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں (مراد بن ربیع اور ہلال بن امیہ) نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی ، تو مجھے تسکین ہوگئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے ۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے، مگر میں نکلتا تحا ، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سرزمین بالکل بدل گئی ہے، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں ۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسبِ معمول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تھا، مگر بس انتظار ہی کرتا رہ جاتا تھا کہ جواب کے لیے آپ کے ہونٹ جنبش کریں۔ نماز میں نظریں چرا کر حضور کو دیکھتا تھا کہ آپ کی نگاہیں مجھ پر کیسی پڑتی ہیں۔  مگر وہاں حال یہ تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا آپ میری طرف دیکھتے رہتے، اور جہاں میں نے سلام پھیرا کہ آپ نے میری طرف سے نظر ہٹائی۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے یار ابو قَتَادَہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا۔ مگر اس اللہ کے بندے نےسلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے کہا”ابوقتادہ، میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں خدا اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا؟ “ وہ خاموش رہے ۔ میں  نے پھر پوچحا ۔ وہ پھر خاموش رہے، تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو  انہوں نے بس اتنا کہا کہ ”اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے“۔ اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار  سے اتر آیا۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شام کے نَبطیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہِ غَسّان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا۔ میں کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ”ہم نے سنا ہے تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کیا جائے ، ہمارے پس آجاؤ، ہم تمہاری قدر کریں گے“۔ میں نے کہا یہ ایک اور بلا نازل ہوئی، اور اسی وقت اس خط کو چولھے میں جھونک دیا۔
چالیس دن  اس حالت پر گزر چکے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آدمی حکم لے کی آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیٰحدہ ہو جاؤ ۔ میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں؟ جواب ملا نہیں، بس الگ رہو۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک  کہ اللہ اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔
 پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنی  جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ یکایک کسی شخص نے پکار کر کہا ”مبارک ہو کعب بن مالک“! میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم ہو گیا ہے۔ پھر تو فوج در فوج لوگ بھاگے چلے آرہے تھے اور ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھ کر مبارک باد دے رہا تھا  کہ تیری توبہ قبول ہو گئی۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبوی کی طرف چلا۔ دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ کوشی سے دمک رہا ہے ۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا ”تجھے مبارک ہو، یہ دن تیری زندگی میں سب سے بہتر ہے“ میں نے پوچھا یہ معافی حضور کی طرف  سے ہے یا خدا کی طرف سے ؟ فرمایا خدا کی طرف سے، اور یہ آیات سنائیں۔ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں ۔ فرمایا”کچھ رہنے دو کہ  یہ تمہارے لیے بہتر ہے“۔ میں نے اس ارشاد کے مطابق اپناخیبر کا حصہ رکھ لیا ، باقی سب صدقہ کر دیا۔ پھر میں نے خدا سے عہد کیا کہ جس راست گفتار ی کے صلے میں اللہ نے مجھے معافی دی ہے اس پر تمام عمر قائم رہوں گا، چنانچہ آج تک میں نحے کوئی بات جان بوجھ کر خلافِ واقعہ  نہیں کہی اور خدا سے امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی مجھے اس سے بچائے گا“۔
یہ قصہ اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے جو ہر مومن کے دل نشین ہونے چاہییں:
سب سے پہلی بات تو اس سے یہ معلوم ہوئی کہ کفر و اسلام کی کشمکش کا معاملہ کس قدر اہم اور کتنا نازک ہے کہ اس کشمکش میں کفر کا ساتھ دینا تو درکنار ، جو شخص اسلام کا ساتھ دینے میں ، بدنیتی سے بھی نہیں نیک نیتی سے ، تمام عمر بھی نہیں کسی ایک موقع ہی پر، کوتاہی برت جاتا ہے اس کی بھی زندگی بھر کی عبادت گزاریاں اور دینداریاں خطرے میں پڑجاتی ہیں ، حتیٰ کہ ایسے عالی قدر لوگ بھی گرفت سے نہیں بچتے جو بدر و احد اور احزاب و حنین کے سخت معرکوں میں جانبازی کے جو ہر دکھا چکے تھے اور جن کا اخلاص  و ایمان ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا۔
دوسری بات ، جو اس سے کچھ کم اہم نہیں  یہ ہے کہ ادائے فرض میں تساہُل کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات محض تساہُل ہی تساہل میں ادمی کسی ایسے قصور کا مرتکب ہو جاتا  ہے جس کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے، اور اس وقت یہ بات اسے پکڑ سے نہیں بچا سکتی کہ اس نے اس قصور کا  ارتکاب بدنیتی سے نہیں کیا تھا۔
پھر یہ قصہ اُس معاشرے کی رُوح کو بڑی خوبی کے ساتھ ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے  جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں بنا حا ۔ ایک طرف منافقین ہیں جن کی غداریاں سب  پر آشکار ہیں مگر ، مگر ان کے ظاہری عذر سُن لیے جاتے ہیں اور درگزر کیا جاتا ہے ، کیونکہ ان سے خلوص ی امید ہی کب تھی کہ اب اس کے عدم کی شکایت کی جاتی۔ دوسری طرح ایک آزمودہ کار مومن ہے جس کی جاں نثاری پر شبہہ تک کی گنجائش نہیں اور وہ جھوٹی باتیں بھی نہیں بناتا، صاف صاف قصور کا اعتراف کر لیتا ہے مگر اس پر غضب کی بارش بر سا دی جاتی ہے، نہ اس  پر کہ اس کے مومن ہونے میں کوئی شبہ ہو گیا ہے، بلکہ اس بنا پر مومن ہو کر اس نے  وہ کام کیوں کیا جو منافقوں کے کرنے کا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ زمین کے نمک تو تم ہو ، تم سے بھی اگر نمکینی حاصل نہ ہوئی تو پھر اور نمک کہاں سے آئے گا۔ پھر لطف یہ ہے کہ اس سارے قضیہ میں لیڈر جس شان سے سزا دیتا ہے اور پیرو جس شان سے اس سزا کو بھگتّا ہے، اور پوری جماعت جس شان سے اس سزا کی نافذ کرتی ہے، اس کا ہر پہلو بے نظیر ہے اور یہ فیصلہ کر نا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کی زیادہ تعریف کی جائے۔ لیڈر نہیایت سخت سزا دے رہا ہے مگر غصے اور نفرت کے ساتھ نہیں ، گہری محبت کے ساتھ دے رہا ہے۔ باپ کی طرح شعلہ بار نگاہوں کا ایک گوشہ ہر وقت یہ خبر دیے جاتا ہے کہ تجھ سے دشمنی نہیں ہے بلکہ تیرے قصور پر تیری ہی خاطر دل دکھا ہے۔ تُو درست ہو جائے تو یہ سینہ تجھے چمٹا لینے کے لیے بے چین ہے۔ پیرو سزا کی سختی پر تڑپ رہا ہے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کا قدم جادۂ اطاعت سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ڈگمگاتا ، اور صرف یہی نہیں کہ اس پر غرور نفس اور حمیت جاہلیہ کا کوئی دورہ نہیں پڑتا اور علانیہ استکبار پر اتر آنا تو درکنار وہ دل میں اپنے محبوب لیڈر کے خلاف کوئی شکایت تک نہیں آنے دیتا ۔ بلکہ  اس کے برعکس وہ لیڈر کی محبت میں اور زیادہ سرشار ہوگیا ہے۔ سزا کے ان پورے پچاس دنوں میں اس کی نظریں سب سے شیادہ بے تابی کے ساتھ جس چیز کی تلاش میں رہیں وہ یہ تھی  کہ سردار کی آنکھوں میں وہ گوشۂ التفات اس کے لیے باقی ہے یا نہیں جو اس کی امیدوں کا آخری سہارا ہے۔ گویا وہ ایک قحط زدہ کسان تھا جس کا سارا سرمایۂ امید بس ایک ذرا سا لکّۂ ابر تھا  جو آسمان کے کنارے پر نظر آتا تھا ۔ پھر جماعت کو دیکھیے تو اس کے ڈسپلن اور اس کی صالح اخلاقی اسپرٹ پر انسان عَش عَش کر جاتا ہے۔ ڈسپلن کا یہ حال کہ اُدھر لیڈر کی زبان سے بائیکاٹ کا حکم نِکلا اِدھر پوری جماعت نے مجرم سے نگاہیں پھیر لیں۔ جلوت تو درکنار خلوت تک میں کوئی قریب سے قریب رشتہ دار اور کوئی گہرے سے گہرا دوست بھی اسے بات نہیں کرتا۔ بیوی تک اس سے الگ ہو جاتی ہے ۔ خدا کا واسطہ دے دے کر پوچھتا ہے کہ میرے خلوص میں تو تم کو شبہ نہیں ہے، مگر وہ لوگ بھی جو مدت العمر سے اس کو مخلص جانتے تھے، صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے نہیں ، خدا اور اس کے رسول سے اپنے خلوص کی سند حاصل کرو۔ دوسری طرف اخلاقی اسپرٹ اتنی بلند  اور پاکیزہ کہ ایک شخص کی چڑھی ہوئی کمان  اترتے ہی مردار خوروں کا کوئی گروہ اس کا گوشت نوچنے اور اسے پھاڑ کھانے کے لیے نہیں لپکتا، بلکہ اس پورے زمانۂ عتاب میں جماعت کا ایک ایک فرد اپنے اس معتعب بھائی کی مصیبت پر رنجیدہ اور اس کو پھر سے اٹھا کر گلے لگا لینے کے لیے بے تاب رہتا ہے اور معافی کا اعلان  ہوتے ہی لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ جلدی  سے جلدی پہنچ کر اس سے ملیں اور اسے خوشخبری پہنچائیں۔ یہ نمونہ ہے اُس صالح جماعت کا جسے قرآن دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔
اس پس منظر میں جب ہم آیت زیرِ بحث کو دیکھتے ہیں تو ہم رپ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان صاحبوں کو اللہ کے دربار سے جو معافی  ملی ہے اور اس معافی کے اندازِ بیان میں جو رحمت و شفقت ٹپکی پڑ رہی ہے اس کی وجہ ان کا وہ اخلاص ہے جس کا ثبوت انہوں نے پچاس دن کی سخت سزا کے دوران میں دیا تھا۔ اگر قصور کر کے وہ اکڑتے اور اپنے لیڈر کی ناراضی کو جواب غصے اور عناد سے دیتے اور سزا ملنے پر اُس طرح بپھرتے جس طرح کسی خود پرست انسان کا غرور نفس زخم کھا کر بپھر ا کرتا ہے ، اور مقاطعہ کے دوران میں ان کا طرزِ عمل یہ ہوتا کہ ہمیں جماعت سے کٹ جانا گوارا ہے مگر اپنی خودی کے بُت پر چوٹ کھانا گوارا نہیں ہے ، اور اگر یہ سزا کا پورا زمانہ وہ اس دوڑ دھوپ میں گزارتے کہ جماعت کے اندر بددلی پھیلائیں اور بددل لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے ساتھ ملائیں تاکہ ایک  جتھا تیار ہو ، تو معافی کیسی ، انہیں تو بالیقین جماعت سے کاٹ پھینکا جاتا اور اس سزا کے بعد ان کی اپنی منہ مانگی سزا ان کو یہ دی ج اتی کہ جاؤ اب اپنی خودی کے بُت ہی کو پوجتے رہو، اعلاء کلمۃ الحق کی جدوجہد میں حصہ لینے کی سعادت اب تمہارےنصیب میں کبھی نہ آئے گی۔ لیکن ان تینوں صاحبوں نے اس کڑی آزمائش  کے موقع پر یہ راستہ اختیار  نہیں کیا، اگرچہ یہ بھی ان کے لیے کھلا ہوا تھا ۔ اس کے برعکس انہوں نے وہ روش اختیار کی جو ابھی آپ دیکھ آئے ہیں۔ اس  روش کو اختیار کرکے انہوں نے ثابت کر دیا کہ خدا پرستی نے ان کے سینے میں کوئی بت باقی نہیں چھوڑا ہے جسے وہ پوجیں، اور اپنی پوری شخصیت کو انہوں نے راہِ خدا کی جدوجہد میں جھونک دیا ہے اور وہ اپنی واپسی کی کشتیاں اس طرح جلا کر اسلامی جماعت میں آئے  ہیں کہ اب یہاں سے پلٹ کر کہیں اور نہیں جا سکتے۔ یہاں کی ٹھوکریں کھائیں گے مگر یہیں مریں گے اور کھپیں گے۔ کسی دوسری جگہ بڑی سے بڑی عزّت بھی ملتی ہو تو یہاں کی ذلت چھوڑ کر اسے لینے نہ جائیں گے۔ اس کے بعد اگر انہیں اٹھا کر سینے سے  لگا نہ لیا جاتا تو اور کیا کیا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ  ان کی معافی کا ذکر ایسے شفقت بھرے الفاظ میں فرمایا تہے کہ ”ہم ان کی طرف پلٹے تاکہ وہ ہماری طرف پلٹ آئیں“۔ ان چند لفظوں میں اِس حالت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ آقا نے پہلے تو ان بندوں سے نظر پھیر لی تھی، مگر جب وہ بھاگے نہیں بلکہ دل شکستہ ہو کر اسی کے در پر بیٹھ گئے تو ان کی شان وفاداری دیکھ کر آقا سے خود نہ رہا گیا ۔ جوش محبت سے بے قرار ہو کر وہ آپ نکل آیا تاکہ انہیں دروازے سے اٹھا لائے۔