اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر١۲١

آیت کے ظاہر الفاظ سے جو مطلب نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دارالاسلام کے جس حصّے  سے دشمنانِ اسلام کا جو علاقہ متصل ہو، اُس کے خلاف جنگ  کرنے کی اولین ذمہ داری اُسی حصے کے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔ لیکن اگر آگے کے سلسلۂ کلام کے ساتھ ملا کر اِس آیت کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں  کفار سے مراد وہ منافق لوگ ہیں جن کا انکار حق پوری طرح نمایاں ہو چکا تھا، اور جن کے اسلامی سوسائٹی میں خلط ملط رہنے سے سخت نقصانات پہنچ رہے تھے۔ رکع ۱۰ کی ابتداء میں بھی جہاں سے اس سلسلہ ٔ تقریر کا آغاز ہوا تھا ، پہلی بات یہی کہی گئی تھی کہ اب ان آستین کے سانپوں کا استیصال کرنے کے لیے باقاعدہ جہاد شروع کر دیا جائے ۔ وہی بات اب تقریر کے اختتام پر تاکید کے لیے  پھر دہرائی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کی اہمیت  کو محسوس کر یں اور اِن منافقوں کے معاملہ میں اُن نسلی و نسبی اور معاشرتی تعلقات کا لحاظ نہ کریں جو اُن کے اور اِن کے درمیان وابستگی کے موجب بنے ہوئے تھے۔ وہاں ان کے خلاف”جہاد “ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں اس سے شدید تر لفظ ”قتال“ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ان کا پوری طرح قلع قمع کر دیا جائے، کوئی کسر ان کی سرکوبی میں اٹھا نہ رکھی جائے۔ وہاں”کفار“ اور ”منافق“ دو الگ لفظ بولے گئے تھے ، یہاں ایک ہی لفظ” کفار“ پر اکتفا کیا گیا ہے ، تاکہ اِن لوگوں کا انکارِ حق  ، جو صریح طور پر ثابت ہو چکا تھا، ان کے ظاہری اقرار ایمان کے پردے میں چھُپ کر کسی رعایت کا مستحق نہ سمجھ  لیا جائے۔