اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۲

سورۂ انفال آیت ۵۸ میں گزر چکا ہے کہ جب تمہیں کسی قوم سے خیانت (نقضِ عہد اور غدّاری) کا اندیشہ ہو تو علی الاعلان ان کا معاہدہ اس کی طرف پھینک دو اور اسے خبردار کردو کہ اب ہمارا تم سے کوئی معاہدہ باقی نہیں ہے۔ اس اعلان کے بغیر کسی معاہد قوم کے خلاف جنگی کارروائی شروع کر دینا خود خیانت کا مرتکب ہونا ہے۔ اسی ضابطۂ اخلاقی کے مطابق معاہدات کی منسوخی کا یہ اعلانِ عام اُن تمام قبائل کے خلا ف کیا گیا جو عہد و پیمان کے باوجود ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے تھے، اور  موقع پاتے ہی پاس عہد کو بالائے طاق رکھ کر دشمنی پر اتر آتے تھے۔ یہ کیفیت بنی کِنانہ اور بنی ضَمرہ اور شاید ایک آدھ اور قبیلہ کے سوا باقی تمام اُن قبائل کی تھی جو اس وقت تک شرک پر قائم تھے۔
اس اعلان ِ براء ت سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود گویا  عملًا خلاف ِ قانون(Outlaw ) ہوگیا اور ان کے لیے سارے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی ، کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیرِ حکم آچکا تھا۔ یہ لوگ تو اپنی جگہ اس بات کے منتظر تھے کہ روم و فارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ لاحق ہو، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاجائیں تو یکایک نقضِ عہد کر کے ملک میں خانہ جنگی برپا کر دیں۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول نے اُن کی ساعتِ منتظرہ آنے سے پہلے ہی بساط ان پر اُلٹ دی اور اعلان براءت کر کے اُن کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار باقی نہ رہنے دیا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہو جائیں اور اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں، یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں، یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو اور اپنے علاقہ کو اُس نظم و ضبط کی گرفت میں دے دیں جو ملک کے بیشتر حصہ کو پہلے ہی منضبط کر چکا تھا۔
اس عظیم الشان تدبیر کی پوری حکمت اُسی وقت سمجھ میں آسکتی ہے جبکہ ہم اُس فتنۂ ارتداد کو نظر میں رکھیں جو اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد ہی نبی صلی اللہ علیہ وسولم کی وفات پر ملک کے مختلف گوشوں میں برپا ہوا اور جس نے اسلام کے نو تعمیر قصر کو یکلخت متزلزل کر دیا۔ اگر کہیں سن ۹ ھجری کے اِس اعلان براءت سے شرک کی منظم طاقت ختم نہ کر دی گئی ہوتی اور پورے ملک پر اسلام کی قوت ضابطہ کا استیلاء پہلے ہی مکمل نہ ہو چکا ہوتا، تو ارتداد کی شکل میں جو فتنہ حضرت ابو بکر کی خلافت کے آغاز میں اُٹھا تھا اُس سے کم از کم دس گنی زیادہ طاقت کے ساتھ بغاوت اور خانہ جنگی کا فتنہ اٹھتا اور شاید تاریخ اسلام کی شکل اپنی موجودہ صورت سے بالکل ہی مختلف ہوتی۔