اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۲۳

جو لوگ  اس بات سے ڈرتے تھے کہ اعلان براءت کی خطرناک پالیسی پر عمل کرنے سے تمام عرب کے گوشے گوشے میں جنگ کی آگ بھڑک اُٹھے گے اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا، ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان اندیشوں سے کیوں ڈرے جاتے ہو، جو خدا  اس سے بہت زیادہ سخت خطرات کے موقعوں پر تمہاری مدد کر چکا ہے وہ اب بھی تمہاری مدد کو موجود ہے ۔ اگر یہ کام تمہاری قوت پر منحصر ہوتا تو مکہ ہی سے آگے نہ  بڑھتا ، ورنہ بدر میں تو ضرور ہی ختم ہو جاتا۔ مگر اس کی پشت پر تو اللہ کی طاقت ہے اور پچھلے تجربات تم پر ثابت کر چکے ہیں کہ اللہ ہی کی طاقت اب تک اس کو فروغ دیتی رہی ہے۔ لہٰذا یقین رکھو کہ آج بھی وہی اسے فروغ دے گا۔
غزوۂ حُنَین جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے شوال سن ۸ ھجری میں ان آیات کے نزول سے صرف بارہ تیرہ مہینے پہلے مکّے اور طائف کے درمیان وادی حُنَین میں پیش آیا تھا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی طرف سے ۱۲ ہزار فوج تھی جو اس سے پہلے کبھی کسی اسلامی غزوہ میں اکٹھی نہیں ہوئی تھی اور دوسری طرف کفار اُن سے بہت کم تھے۔ لیکن اس کے باوجود قبیلۂ ہوازِن کے تیر اندازوں نے ان کا منہ پھیر دیا اور لشکر ِ اسلامی بُری طرح تِتّر بِتّر ہو کر پسپا ہوا۔ اس وقت صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور چند مٹھی بھر جانباز صحابہ تھے جن کے قدم اپنی جگہ جمے رہے اور انہی کی ثابت قدمی کو نتیجہ تھا کہ دوبارہ فوج کی ترتیب قائم ہو سکی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی۔ ورنہ فتح مکہ سے جو کچھ حاصل ہوا تھا اس سے بہت زیادہ حنین میں کھو دینا پڑتا۔