عرب میں نَسِی دو طرح کی تھی ۔ اس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ جنگ و جدل اور غارت گری اور خون کے انتقام لینے کی خاطر کسی حرام مہینے کو حلال قرار دے لیتے تھے اور اس کے بدلے میں کسی حلال مہینے کو حرام کر کے حرام مہینوں کی تعداد پوری کر دیتے تھے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اُس میں کبِیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیتے تھے ، تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے اور وہ اُن زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کےمطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں۔ اس طرح ۳۳ سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہو تا رہتا تھا اور صرف چونتیسویں سال ایک مرتبہ اصل ذی الحجہ کی ۹ – ۱۰ تاریخ کو ادا ہوتا تھا ۔ یہی وہ بات ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےخطبہ میں فرمائی تھی کہ ان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السمٰوٰت والارض۔ یعنی اِس سال حج کا وقت گردش کرتا ہو اٹھیک اپنی اس تاریخ پر آگیا ہے جو قدرتی حساب سے اس کی اصل تاریخ ہے۔ |