اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر٦۴

تالیف قلب کے معنی ہیں دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہےکہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوش عداوت کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہو ، یا جو لوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انہیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مدد گار بن سکتے ہوں ، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے ان کی استمالت نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے، ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار ، یا مطیع و فرماں بردار ، یا کم از کم بے ضر ر دشمن بنالیا جائے۔ اس مد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال کرچ کیا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو زکوٰۃ  کی مد سے بھی۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں تب ہی ان کی مدد زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ مالدار اور رئیس  ہونے پر بھی زکوٰۃ دیے جانے کے مستحق ہیں۔
          یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیفِ قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیئے جاتے تھے لیکن اس امر میں اختلاف ہو گیا ہے کہ آیا آپؐ کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے سے یہ مد ساقط  ہوگئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیف قلب کے لیے زکوٰۃ کی مد سے دیا جا سکتا ہے مگر کفار کو نہیں۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃالقلوب کا حصّہ اب بھی باقی ہے اگر اس کی ضرورت ہو۔
          حنفیہ کا استدلال  اِس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عُیَینَہ بن حِصن اور اَقرَع بن حابِس حضرت ابوبکر ؓ کا پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی ۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا۔ انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیانِ صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کریں۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہوگئیں۔ مگر جب یہ لوگ حضرت عمر ؓ کے پاس گواہی لینے گئے تو انہوں نے فرمان کو پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کر تے تھے مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا ۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس پر وہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس شکایت لے کر آئے اور اپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمرؓ؟ لیکن نہ تو حضرت ابو بکر ؓ ہی نے اس پر  کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے  ہی کسی نے حضرت عمر ؓ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہوگئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی کہ اپنے بل بوتے پر کھرے ہو سکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداءً مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا۔ اس لیے با جماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہو گیا۔
          امام شافعی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ تالیف قلب کے لیے کفار کو مال زکوٰۃ دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کفار کو تالیف قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مال ِ غنیمت سے دیا نہ کہ مال زکوٰۃ سے۔
          ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃالقلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلاشبہہ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ اگر اسلامی حکوت تالیف قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو  تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے ۔ حضرت عمرؓ اور صحابۂ کرام کا اجماع حس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانہ میں جو حالات تھے ان میں تالیف قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسُوس نہ کرتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہؓ کے اجماع نے اُس مد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔
رہی امام شافعی کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مداتِ آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیف قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صرف نہ کرنا چاہیے۔لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت  پیش آجائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی  وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیف قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لو گ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امام مسلمین بشرط ضرورت زکوٰۃ کا مال صرف کرنے کا ازروئے قرآن مجاز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اگر اس مد سے کفار  کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا۔ ورنہ اگر آپؐ کے نزدیک  کفار پر اس مد کا مال صرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرماتے۔