اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۸۲

اس وقت  تک منافقین کے ساتھ زیادہ تر درگزر کا معاملہ ہو رہا تھا ، اور اسکے  دو وجوہ تھے۔ ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ابھی اتنی مضبوط نہ ہوئی تھی کہ باہر کے دشمنوں سے لڑنے کے ساتھ ساتھ گھر کے دشمنوں سے بھی لڑائی مول لے لیتے۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے جولوگ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے ان کو ایمان و یقین حاصل کرنے کے لیے کافی موقع دینا  مقصود تھا۔ یہ دونوں وجوہ اب باقی نہیں  رہے تھے۔ مسلمانوں کی طاقت اب تمام عرب کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی اور عرب سے باہر کی طاقتوں سے کشمکش کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا اس لیے ان آستین کے سانپوں کا سر کچلنا اب ممکن بھی تھا اور ضروری بھی ہو گیا تھا ، تا کہ یہ لوگ بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر کے  ملک میں کوئی اندرونی  خطرہ نہ کھڑا کر سکیں۔ پھر ان لوگوں کو پورے ۹ سال تک  سوچنے، سمجھنے اور دین ِ حق کو پرکھنے کا موقع  بھی دیا جا چکا تھا جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اگر ان میں واقعی خیر کی کوئی طلب ہوتی ۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مزید رعایت کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اس لیے  حکم  ہو اکہ کفار کے ساتھ ساتھ اب اِن منافقین کے خلاف بھی جہاد شروع کر دیا جائے اور جو نرم رویہ اب تک ان کے معاملہ میں اختیار کیا جاتا  رہا ہے  ، اسے ختم کر کے اب ان کے ساتھ سخت برتاؤکیا جائے۔
منافقین کے خلا ف جہاد اور سخت برتاؤ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے۔ دراصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش سے چشم پوشی اب  تک برتی گئی ہے ، جس کی وجہ سے یہ مسلمانوں میں ملے جلے رہے، اور عام مسلمان ان کو اپنی ہی سوسائٹی کا ایک جز سمجھتے رہے، اور ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میں اپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا ، اس کو آئندہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ  روش اختیار کرے اور جس کے طرزِ عمل سے بھی یہ ظاہر ہو کہ وہ خدا اور رسول اور اہلِ ایمان کا مخلص رفیق نہیں ہے ، اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے، علانیہ اس کو ملامت کی جائے، سوسائٹی میں اس کے لیے عزت و اعتبار  کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے ، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھا جائے، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو، عہدوں اور مناصب کا دروازہ اس کے لیے بند رہے، محفلوں میں اسے کوئی منہ نہ لگائے، ہر مسلمان اس سے ایسا برتاؤ کرے جس سے اس کو خود معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں کہیں بھی اس کا کوئی وقار نہیں اور کسی دل میں بھی اس کےلیے احترام کا کوئی گوشہ نہیں۔ پھر اگر اُن میں سے کوئی شخص کسی صریح غداری کا مرتکب ہو تو اس کے جرم  پر پردہ نہ ڈالا جائے، نہ اسے معاف کیا جائے، بلکہ علیٰ رؤس الاَشہاد اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔
یہ اک نہایت اہم ہدایت تھی جو اس مرحلہ پر مسلمانوں کو دی جانی ضروری تھی ۔ اس کے بغیر اسلامی سوسائٹی کو تنزل و انحطاط کے اندرونی اسباب سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ کوئی جماعت جو اپنے اندر منافقوں اور غداروں کو پرورش  کرتی ہو اور جس میں  گھریلو سانپ عزت اور تحفظ کے ساتھ آستینوں میں بٹھائے جاتے ہوں ، اخلاقی زوال اور بالآخر کامل تباہی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ نفاق کا حال طاعون کاسا ہے اور منافق وہ چوہا ہے جو اس وبا کے جراثیم لیے پھرتا ہے۔ اس کو آبادی میں آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے کا موقع دینا گویا پوری آبادی کو موت کے خطرے میں ڈالنا ہے ۔ ایک منافق کو مسلمانوں کی سوسائٹی میں عزت و احترام کا مرتبہ حاصل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہزاروں آدمی غداری و منافقت پر دلیر ہو جائیں اور یہ خیال عام ہو جائے کہ اس سوسائٹی میں عزت پانے لیے اخلاص ، خیر خواہی اور صداقت ایمانی  کچھ ضروری نہیں ہے بلکہ جھوٹے اظہار ِ ایمان کے ساتھ خیانت اور بے وفائی کا رویہ اختیار کر کے بھی یہاں آدمی پھل پھول سکتا ہے۔ یہی بات  ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر سے حکیمانہ فقرے میں بیان فرمایا ہے کہ   من و قر صاحب بد عۃ فقد اعان علیٰ ھد م الاسلام ۔” جس شخص نے کسی صاحبِ بدعت کی تعظیم و توقیر کی وہ دراصل اسلام کی عمار ت ڈھانے میں مدد گار ہوا“۔