اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۹۹

یہاں جھوٹے مدعی امان اور گنہگار مومن کا فرق صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے ۔ جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر فی الواقع خدا اور اس کے دین اور جماعت مومنین کے ساتھ کوئی خلوص نہیں رکھتا اس کے عدم اخلاص کا ثبوت اگر اس کے طرزِ عمل سے مل جائے تو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے گا۔ خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لیے وہ کوئی مال پیش کرے  تو اسے رد کر دیا جائے گا۔ مرجائے تو نہ مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور نہ کوئی مومن اس کے لیے دعائے مغفرت کرے گا چاہے وہ اس کا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ بخلاف اس کے جو شخص مومن ہواور اس سے کوئی غیر مخلصانہ طرزِ عمل سرزد ہو جائے وہ اگر اپنے قصور  کا اعتراف  کر لے  تو اس کو معاف  بھی کیا جائے گا ، اس کے صدقات بھی قبول کیے جائیں گے اور اس کے لیے دعائے رحمت بھی کی جائے گی۔ اب رہی یہ بات کہ کس شخص کو غیر مخلصانہ طرزِ عمل کے صدور کے باوجود منافق کے بجائے محض گناہ گار  مومن  سمجھا جائے گا ، تو یہ تین معیاروں سے پرکھی جائے گی جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے:
(۱) وہ اپنے قصور کے لیے عذرات لنگ اور تاویلات و توجیہات پیش نہیں کرے گا ، بلکہ جو قصور ہوا ہے اسے سیدھی طرح صاف صاف مان لے گا۔
(۲) اس کے سابق طرزِ عمل پر نگاہ ڈال کر دیکھا جائے گا  کہ یہ عدم اخلاص کا عادی مجرم تو نہیں ہے۔ اگر پہلے وہ جماعت  کا ایک صالح فرد رہا ہے اور اس کے کارنامۂ زندگی میں مخلصانہ خدمات ، ایثار و قربانی ، اور سبقت الی الخیرات کا ریکارڈ موجود  ہے تو باور کر لیا جائے گا کہا اِس وقت  جو قصور اس سے سرزد ہوا ہے وہ ایمان و اخلاص کے عدم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض ایک کمزوری ہے جو وقتی طور پر رونما ہوگئی ہے۔
(۳) اس کے آئندہ  طرزِ عمل پر نگاہ رکھی جائے گی کہ آیا اس کا اعترافِ قصور محض زبانی ہے یا فی الواقع  اس کے اندر کوئی گہرا احساس ِ ندامت موجود ہے۔ اگر وہ اپنے قصور کی تلافی کے لیے بے تاب نظر آئے اور اس کی بات بات سے ظاہر ہو کہ جس نقص ایمانی کا نقش اس کی زندگی میں ابھر آیا تھا اسے مٹانے اور اس کا تدارک کرنے کی وہ سخت کوشش کر رہا ہے ، تو سمجھا جائے گا کہ وہ حقیقت  میں نادم ہے اور یہ ندامت ہی اس کے ایمان و اخلاص کی دلیل ہو گی۔
محدثین  نے ان آیات کی شان نزول میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے یہ مضمون آئینہ کی طرح روشن ہو جاتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات ابو لُبابہ  بن عبد المنذِر اور ان کے چھ ساتھیوں کے معاملہ میں نازل ہوئی تھیں۔ ابو لُبابہ ان لوگوں میں سے تھے جو بیعتِ عقبہ کے موقع پر ہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے۔ پھر جنگ بدر، جنگ اُحُد اور دوسرے معرکوں میں برابر شریک رہے ۔ مگر غزوۂ تبوک کے موقع پر نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا اور یہ کسی عذر شرعی کے بغیر بیٹھے رہ گئے۔ ایسے ہی مخلص ان کے دوسرے ساتھی بھی تھے اور ان سے بھی یہ کمزوری سرزد ہو گئی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے اور ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق اللہ اور رسول کی کیا رائے ہے تو انہیں سخت ندامت ہوئی۔ قبل اس کے کوئی باز پرس ہوتی انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا اور کہا کہ ہم پر خواب و خور حرام ہے جب تک ہم معاف نہ کر دیے جائیں ، یا پھر ہم مر جائیں ۔ چنانچہ کئی روز وہ اسی طرح بے آپ و دانہ اور بے خواب بندھے رہے حتیٰ کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ آخر کا ر جب انہیں بتایا گیا کہ اللہ اور رسول نے تمہیں معاف کر دیا  تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہماری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ جس گھر کی آسائش نے ہمیں فرض سے غافل کیا اسے اور اپنے تمام مال کو خدا کی راہ میں دے دیں گے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  سارا مال دینے کی ضرورت نہیں ، صرف ایک تہائی کافی ہے، چنانچہ وہ انہوں نے اسی وقت فی سبیل اللہ وقف کر دیا۔ اس قصہ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوجا تا ہے کہ خدا کےہاں معافی کس قسم کی کمزوریوں کے لیے ہے۔ یہ سب حضرات عادی غیر مخلص نہ تھے بلکہ ان کا پچھلا کارنامۂ زندگی ان کے  اخلاص ایمانی پر دلیل تھا۔ ان میں سے کسی نے عذرات نہیں تراشے بلکہ اپنے قصور  کو خود ہی قصور مان لیا۔ انہوں نے اعتراف ِ قصور کے ساتھ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی نہایت نادم اور اپنے اس گناہ کی تلافی  کے لیے سخت بے چین ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک اور مفید نکتے پر بھی نگاہ رہنی چاہیے  جو ان آیات میں ارشاد ہوا ہے ۔ وہ  یہ  کہ گناہوں کی تلافی کے لیے  زبان اور قلبِ کی تو بہ کے ساتھ ساتھ عملی توبہ بھی ہونی چاہیے، اور عملی توبہ کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں مال خیرات کرے۔ اس طرح وہ گندگی جو نفس میں پرورش پا رہی تھی اور جس کی بدولت آدمی سے گناہ کا صدور ہوا تھا، دور ہو جاتی ہے اور خیر کی طرف پلٹنے کی استعداد بڑھتی ہے ۔ گناہ کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرنا ایسا ہے جیسے ایک آدمی جو گڑھے میں گر گیا تھا، اپنے گرنے کو خود محسوس کر لے۔ پھر اس کا اپنے گناہ پر شرمسار  ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس گڑھے کو اپنے لیے نہایت بری جائے قرار سمجھتا ہے اور اپنی اسی حالت سے سخت تکلیف میں ہے ۔ پھر اس کا صدقہ و خیرات اور دوسری نیکیوں سے اس کی تلافی کی سعی کرنا گویا گڑھے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا ہے۔