یہاں جھوٹے مدعی امان اور گنہگار مومن کا فرق صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے ۔ جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر فی الواقع خدا اور اس کے دین اور جماعت مومنین کے ساتھ کوئی خلوص نہیں رکھتا اس کے عدم اخلاص کا ثبوت اگر اس کے طرزِ عمل سے مل جائے تو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے گا۔ خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لیے وہ کوئی مال پیش کرے تو اسے رد کر دیا جائے گا۔ مرجائے تو نہ مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور نہ کوئی مومن اس کے لیے دعائے مغفرت کرے گا چاہے وہ اس کا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ بخلاف اس کے جو شخص مومن ہواور اس سے کوئی غیر مخلصانہ طرزِ عمل سرزد ہو جائے وہ اگر اپنے قصور کا اعتراف کر لے تو اس کو معاف بھی کیا جائے گا ، اس کے صدقات بھی قبول کیے جائیں گے اور اس کے لیے دعائے رحمت بھی کی جائے گی۔ اب رہی یہ بات کہ کس شخص کو غیر مخلصانہ طرزِ عمل کے صدور کے باوجود منافق کے بجائے محض گناہ گار مومن سمجھا جائے گا ، تو یہ تین معیاروں سے پرکھی جائے گی جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے: |