یعنی ان لوگوں میں ہرگز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں ، اس کی صفات میں ، اس کے حقوق میں اور اس کے اختیارات میں کسی طور پر غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں۔ کواہ وہ غیر اللہ ان کا اپنا نفس ہو، یا کوئی دوسرا انسان ہو، یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو، یا کوئی روح ہو، جن ہو، فرشتہ ہو، یا کوئی مادّی یا خیالی یا وہمی وجود ہو۔ پس مطالبہ صرف اِس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ توحیدِ خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر۔ بلکہ اِس سلبی صورت میں بھی ہے کہ اُن لوگوں سے الگ ہو جا جو کسی شکل اور ڈھنگ کرتے ہوں ۔ عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی، انفرادی طرزِ زندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظامِ حیات میں بھی، معبدوں اور پرستش گاہوں ہی میں نہیں درس گاہوں میں بھی، عدالت خانوں میں بھی، قانون سازی کی مجلسوں میں بھی، سیاست کےایوانوں میں بھی ، معیشت کے بازاروں میں بھی، غرض ہرجگہ اُن لوگوں کے طریقے سے اپنا طریقہ الگ کر لے جنہوں نے اپنے افکار و اعمال کا پورا نظام خدا پرستی اور ناخدا پرستی کی آمیزش پر قائم کر رکھا ہے۔ توحید کا پیرو زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا، کجا کہ آگے وہ ہوں اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں! |