اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر١۰۹

یعنی ان لوگوں میں ہرگز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں ، اس کی صفات میں ، اس کے حقوق میں اور اس کے اختیارات میں کسی طور پر غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں۔ کواہ وہ غیر اللہ ان کا اپنا نفس ہو، یا کوئی دوسرا انسان ہو، یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو، یا کوئی روح ہو، جن ہو، فرشتہ ہو، یا کوئی مادّی یا خیالی یا وہمی  وجود ہو۔ پس مطالبہ صرف اِس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ  توحیدِ خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر۔ بلکہ اِس سلبی صورت میں بھی ہے کہ اُن لوگوں سے الگ ہو جا جو کسی  شکل  اور ڈھنگ  کرتے ہوں ۔ عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی،  انفرادی طرزِ زندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظامِ حیات میں بھی،  معبدوں اور پرستش گاہوں ہی  میں نہیں  درس گاہوں میں بھی، عدالت خانوں   میں بھی، قانون سازی کی مجلسوں میں بھی،  سیاست کےایوانوں میں بھی ، معیشت کے بازاروں  میں بھی، غرض ہرجگہ اُن لوگوں کے طریقے  سے اپنا طریقہ الگ کر لے جنہوں نے اپنے افکار و اعمال کا پورا نظام خدا پرستی اور ناخدا پرستی کی آمیزش پر قائم کر رکھا ہے۔ توحید کا پیرو زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا  کر نہیں چل سکتا، کجا کہ آگے وہ ہوں اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں!
پھر مطالبہ شرک جلی ہی سے پرہیز کا نہیں ہے بلکہ شرک خفی سے بھی کامل اور سخت اجتناب کا ہے۔ بلکہ شرک خفی زیادہ خوفناک ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔ بعض نادان لوگ ”شرک خفی“ کو ”شرک خفیف“ سمجھتے ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ اس کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا شرک جلی کا ہے۔ حالاں کہ خفی کے معنی خفیف کے نہیں ہیں، پوشیدہ و مستور کے ہیں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو دشمن منہ کھول کر دن دہاڑے سامنے آجائے وہ زیادہ خطرناک ہے یا وہ جو آستین میں چھُا ہوا ہو یا دوست کے لباس میں معانقہ کر رہا ہو؟ بیماری وہ زیادہ مہلک ہے جس کی علامات بالکل نمایاں ہوں یا وہ جو مدتوں تک  تندرستی کے دھوکے میں رکھ کر اندر ہی اندر صحت کی جڑ کھوکھلی کر تی رہے؟ جس شرک کو ہر شخص بیک نظر دیکھ کر کہہ دے کہ یہ شرک ہے ، اُس سے تو دینِ توحید کا تصادم بالکل کھلا ہوا ہے۔ مگر جس شرک کو سمجھنے کے لیے گہری نگاہ اور مقتضیات ِ توحید کا عمیق فہم درکار ہے وہ اپنی غیر مرئی جڑیں دین کے نظام میں اس طرح پھیلاتا ہے کہ عام اہلِ توحید کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ ایسے غیر محسوس طریقے سے دین کے مغز کو کھا جاتا  ہے کہ کہیں خطرے کا الارم بجنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔