اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر ۱۵

اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب نصیحت اور تفہیم کی تقریر شروع ہوتی ہے۔ اس تقریر کو پڑھنے سے پہلے اس کے پس منظر سے متعلق دو باتیں پیشِ نظر رکھینی چاہییں:
ایک یہ کہ اِس تقریر سے تھوڑی مدّت پہلے وہ مسلسل اور سخت بلا انگیز ، قحط ختم ہوا تھا جس کی مصیبت سے اہلِ مکہ چیخ اُٹھے تھے۔ اس قحط کے زمانے میں قریش کے متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں بہت جھک گئی تھیں۔ دعائیں اور زاریاں کرتے تھے ، بت پرستی میں کمی آگئی تھی، خدائے واحد کی طرف رجوع بڑھ گیا تھا اور نوبت یہ آگئی تھی کہ آخر کار ابو سفیان نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپؐ خدا سے اس بلا کو ٹالنے کے لیے دعا کریں۔ مگر جب قحط دُور ہو گیا، بارشیں ہونے لگیں اور خوشحالی کا دَور آیا تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں اور بد اعمالیاں ، اور دینِ حق کے خلا ف وہی سرگرمیاں  پھر شروع ہو گئیں اور جو دل خدا کی طرف رجوع کر نے لگے تھے وہ پھر اپنی سابق غفلتوں میں ڈوب گئے ۔ (ملاحظہ ہو النحل، آیت ۱۱۳۔ المومنون، آیات ۷۵ تا ۷۷۔ ، الدخان، آیات ۱۰ تا ۱۶
دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ان  لوگوں کو انکار ِ حق کی پاداش سے ڈراتے  تھے تو یہ لوگ جواب میں کہتے تھے کہ تم جس عذابِ الہٰی کی دھمکیاں دیتے ہو وہ آخر  آکیوں نہیں جاتا۔ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے۔
اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا لوگوں پر رحم و کرم فرمانے میں جتنی جلدی کرتا ہے  ان کو سزا دینے اور ان کے گناہوں پر پکڑ لینے میں اتنی  جلدی نہیں کرتا۔ تم چاہتے ہو کہ جس طرح اس نے تمہاری دعائیں سُن کر بلائے قحط جلدی سے دُور کر دی ۔ اُسی طرح وہ تمہارےچیلنج سُن  کر اور تمہاری سرکشیاں دیکھ کر عذاب بھی فورًا بھیج دے۔ لیکن خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے۔ لوگ خواہ کتنی ہی سرکشیاں کیے جائیں وہ ان کو پکڑنے سے پہلے سنبھلنے کا کافی موقع دیتا ہے۔ پیہم تنبیہات بھیجتا ہے اور رسی ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب رعایت کی حد ہو جاتی ہے تب پاداش عمل  کا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ یہ تو ہے  خدا کا طریقہ۔ اور اس کے برعکس کم ظرف انسانوں کا طریقہ وہ ہے جو تم نے اختیار کیا کہ جب مصیبت آئی تو خدا یاد آنے لگا، بلبلانا اور گڑگڑانا شروع کر دیا، اور جہاں راحت کا دَور آیا کہ سب کچھ بھول گئے ۔ یہی وہ لچھن ہیں جن سے قومیں اپنے آپ کو عذاب ِ الہٰی کا مستحق بناتی ہیں۔