اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۴۷

تکذیب یا تو اس بنیاد پر کی جا سکتی تھی کہ ان لوگوں کو اس کتاب کا ایک جعلی کتاب ہونا تحقیقی طور پر معلوم ہو تا۔ یا پھر اس بنا پر وہ معقول ہو سکتی تھی کہ جو حقیقتیں اس میں بیان کی گئی ہیں اور جو خبریں اس میں دی گئی ہیں وہ غلط ثابت ہو جاتیں۔ لیکن ان دونوں وجوہِ تکذیب میں سے کوئی وجہ بھی یہاں موجود نہیں  ہے۔ نہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ کہ وہ ازروئے علم جانتا ہے کہ یہ کتاب گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ نہ کسی نے پردۂ غیب کے پیچھے جھانک کر یہ دیکھ لیا ہے کہ واقعی بہت سے خدا موجود ہیں اور یہ کتاب خواہ مخواہ ایک خدا کی خبر سنا رہی ہے ، یا فی الواقع خدا اور فرشتوں اور وحی  وغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کتاب میں خواہ مخواہ یہ افسانہ بنا لیا گیا ہے ۔ نہ کسی نے مر کر یہ دیکھ لیا ہے کہ دوسری زندگی اور اس کے حساب کتاب اور جزا و سزا کی ساری خبریں جو اس کتاب میں دی گئی ہیں غلط ہیں۔ لیکن اس کے با وجود نرے شک اور گمان کی بنیا د پر اس شان سے اس کی تکذیب کی جا رہی ہے ک ہ گویا علمی طور پر اس کے جعلی  اور غلط ہونے کی تحقیق کر لی گئی ہے۔